کتاب: دعا کے مسائل - صفحہ 24
ساری زندگی گناہوں میں گزری ہے کوئی گناہ ایسا نہیں جس کا ارتکاب نہ کیا ہو۔ روئے زمین کی ساری مخلوق میں اگر میرے گناہ تقسیم کر دیئے جائیں تو سب کو لے ڈوبیں۔کیا میری توبہ کی کوئی صورت ہے؟‘‘آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا’’کیا تونے اسلام قبول کر لیا ہے؟‘‘اس نے عرض کیا’’میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں۔‘‘آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا’’ جا اللہ معاف کرنے والا اور برائیوں کو نیکیوں میں بدلنے والا ہے۔‘‘اس نے عرض کیا’’ کیا میرے سارے گناہ اور جرم معاف ہو جائیں گے؟‘‘آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا’’ہاں تیرے سارے گناہ اور جرم معاف ہو جائیں گے۔‘‘(ابن کثیر)پس اللہ کی رحمت سے نہ تو خود کسی کو مایوس ہونا چاہئے اور نہ ہی کسی دوسرے شخص کو یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ کسی توبہ کرنے والے کو اللہ کی رحمت سے مایوس کرے۔ 5 جس طرح اللہ کی رحمت سے مایوس ہونا گناہ ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ کو غفور اور رحیم سمجھ کر عمداً گناہ کرتے چلے جانا یا توبہ کرکے بار بار توڑتے چلے جانا اس سے بھی بڑا گناہ ہے جو دراصل اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مذاق اور تمسخر کے مترادف ہے۔قرآن پاک میں ارشاد مبارک ہے ﴿وَلاَ تَغُرَّنَّکُمْ بِاللّٰہِ الْغَرُوْرُ﴾ ’’کوئی دھوکے باز تمہیں اللہ کے معاملے میں دھوکہ نہ دینے پائے۔‘‘(سورۃ لقمان، آیت نمبر33)اللہ کے معاملے میں دھوکہ یہی ہے کہ انسان اس فریب میں مبتلا رہے کہ اللہ تعالیٰ غفورو رحیم ہے۔گناہ کرتے چلے جاؤ وہ بخشتا چلا جائے گا اور سزا نہیں دے گا۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایمان کی صحیح کیفیت امید اور خوف کے درمیان بتلائی ہے۔ انسان کو جتنی اللہ کی رحمت سے مغفرت کی امید رکھنی چاہئے اتنا ہی اللہ کی پکڑ اور گرفت کا خوف بھی دامن گیر رہنا چاہئے۔ استغفار استغفار کا مطلب ہے معافی اور بخشش طلب کرنا۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں حصول بخشش کے لئے چار شرائط مقرر فرمائی ہیں : ﴿وَاِنِّیْ لَغَفَّارٌ لِّمَنْ تَابَ وَاٰمَنَ وَ عَمِلَ صَالِحًا ثُمَّ اھْتَدٰی﴾(82:20) ’’جو شخص توبہ کرے، ایمان لائے، نیک عمل کرے اور سیدھا چلتا رہے۔ اس کے لئے میں بہت بخشنے والا ہوں۔‘‘(سورۃ طہٰ، آیت نمبر82)