کتاب: دعا کے مسائل - صفحہ 23
(توبۃ النصوح)کرنے کا حکم دیا ہے۔حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے کسی نے خالص توبہ کا مفہوم پوچھاتو انہوں نے کہا۔’’میں نے یہی سوال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا’’اس سے مراد یہ ہے کہ جب تم سے کوئی گناہ ہو جائے تو اس پر نادم ہو‘ پھر اللہ سے معافی مانگو اور آئندہ کبھی اس گناہ کا ارتکاب نہ کرو۔‘‘(ابن جریر بحوالہ تفہیم القرآن)اس حدیث شریف میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے توبہ کے لئے تین شرطیں مقرر فرمائی ہیں: ٭ اولاً: گناہ پر نادم ہونا۔ ٭ ثانیاً : اللہ سے معافی مانگنا۔ ٭ ثالثاً: آئندہ اس گناہ سے مکمل طور پر اجتناب کرنا۔ توبہ کے معاملے میں چند دیگر اہم امور درج ذیل ہیں: 1 توبہ کا وقت عالم نزع طاری ہونے سے پہلے تک ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاارشاد مبارک ہے’’اللہ بندے کی توبہ اس وقت تک قبول فرماتا ہے جب تک وہ نزع میں مبتلا نہیں ہوتا‘‘(ترمذی) 2 گناہ پر کسی دنیاوی غرض کے لئے ندامت محسوس کرنا۔ مثلاً بے عزتی کے ڈرسے، مالی نقصان کے خوف سے، بیماری یا موت کے ڈر سے۔ توبہ کی تعریف میں نہیں آتا۔ 3 اگر کسی کا نفس توبہ کے بعد بھی گزشتہ گناہ کے تصور سے لطف اندوز ہوتا ہے تو اسے اس وقت تک بار بار توبہ کرتے رہنا چاہئے جب تک اس کا نفس حقیقتاً ندامت محسوس نہ کرنے لگے۔ 4 اللہ تعالیٰ کی رحمت انسانی وہم و گمان سے بھی زیادہ وسیع ہے۔ اس کی رحمت سے کبھی مایوس نہیں ہونا چاہئے۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی اسرائیل کے ایک شخص کا واقعہ بیان فرمایا جس نے ننانوے قتل کئے تھے۔اس نے ایک درویش سے اپنی توبہ کے بارے میں دریافت کیا تو اس نے کہا’’تمہاری توبہ قبول نہیں ہوسکتی۔‘‘ چنانچہ اس شخص نے اسے بھی قتل کر دیا تب اس نے ایک عالم سے مسئلہ پوچھا اس نے بتایا’’ہاں! تمہاری توبہ قبول ہوسکتی ہے بشرطیکہ تم فلاں(نیک لوگوں کی)بستی میں چلے جاؤ۔‘‘چنانچہ یہ آدمی اپنی بستی سے ہجرت کرکے دوسری طرف چل دیا۔راستے میں اسے موت آگئی۔جنت اور جہنم کے فرشتے آپس میں اختلاف کرنے لگے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے دونوں(اگلی اورپچھلی)زمینیں ماپنے کا حکم ہوا، زمین ماپی گئی تو نیک لوگوں کی بستی(جس طرف ہجرت کرکے جارہا تھا)بالشت بھر قریب نکلی اور اس کی مغفرت کر دی گئی۔(بخاری و مسلم) ایک بوڑھا شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !