کتاب: دعا کے مسائل - صفحہ 19
کوششیں ناکام اور لاحاصل ثابت ہوتی ہیں بلکہ بعض اوقات انسانی تدابیر اور کوششیں ایسے فتنوں سے نکالنے کی بجائے مزید پھنسانے کا باعث بن جاتی ہیں۔ ایسے حالات میں انسان کو بالآخر دعا ہی کا سہارا لینا پڑتا ہے۔پس حقیقت یہ ہے کہ وہ معاملات جن میں تدابیر اور مادی وسائل اختیار کرنا ممکن ہی نہیں وہاں دعا ہی سب سے بڑی تدبیر اور دعا ہی سب سے بڑا وسیلہ ہے اور وہ معاملات جن میں انسان بساط بھر تدابیر اور وسائل مہیا کر سکتا ہے ان میں بھی بسا اوقات وسائل اور تدابیر اختیار کرنے کے باوجود تھک ہار کر دعا کی طرف ہی رجوع کرنا پڑتا ہے۔ پس اس ساری گفتگو کا حاصل یہ ہے کہ جہاں کہیں ظاہری اسباب اور وسائل مہیا کرنا یا تدابیراختیار کرنا ممکن ہو وہاں اختیار کرنے چاہئیں لیکن ان پر توکل ہرگز نہیں کرنا چاہئے۔توکل کے لائق صرف ایک ہی چیز ہے اور وہ ہے دعا کے ذریعے رجوع الی اللہ۔غزوہ ٔبدر میں شکستہ اور قلیل وسائل کے ساتھ رجوع الی اللہ نے مسلمانوں کو بہترین فتح سے ہمکنار کیا جبکہ غزوۂ حنین میں بہترین اور کثیر وسائل کے ساتھ وسائل پر توکل کے تصور نے مسلمانوں کو شکست سے دوچار کر دیا۔ دعا اور ظاہری اسباب پر بحث کرتے ہوئے غزوۂ بدر اور غزوۂ حنین میں مسلمانوں کو دی گئی تعلیم کو ہرگز نظر انداز نہیں کرنا چاہئے۔ اللہ کا ذکر قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو کثرت سے ذکر کرنے کا حکم دیا ہے سورۃ احزاب میں اللہ پاک کا ارشاد مبارک ہے : ﴿یٰٓـاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اذْکُرُوا اللّٰہَ ذِکْرًا کَثِیْرًا﴾(41:33)’’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو! اللہ کو کثرت سے یاد کرو۔‘‘ اللہ کو کثرت سے یاد کرنے کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنے قول و فعل دونوں میں اللہ کو یاد رکھے۔قول میں ذکر یہ ہے کہ ہر بات میں اللہ کا نام لیا جائے۔ مثلاً ہر کام شروع کرنے سے پہلے بِسْمِ اللّٰہِ کہا جائے، حصول نعمت پر اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ کہا جائے، اچھی چیز دیکھنے پر مَآشَائَ اللّٰہ کہا جائے، وعدہ کرنے پر اِنْ شَائَ اللّٰہ کہا جائے، تلاوت قرآن کثرت سے کی جائے نیز اٹھتے بیٹھتے، چلتے پھرتے ہر وقت مسنون دعائیں پڑھی جائیں۔فعل میں ذکر یہ ہے کہ انسان اپنے تمام معاملات میں اللہ کے احکام کو یاد رکھے۔ نماز، زکوٰۃ،روزہ اور حج کے علاوہ والدین کے حقوق، بیوی بچوں کے حقوق، عزیز و اقارب کے حقوق، ہمسایوں کے حقوق، بیواؤں اور یتیموں کے حقوق، باہمی لین دین، کاروبار