کتاب: دعا کے مسائل - صفحہ 18
نہ ہوگی۔‘‘(سیرت ابن ہشام)گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظاہری اسباب کی ممکنہ تیاری اور دعا دونوں میں سے کسی ایک کو بھی نظر انداز نہیں فرمایا۔ہاں اگر دونوں چیزوں میں تقابل کا سوال در پیش ہو تو ہمارے نزدیک بلاتامل ظاہری اسباب کے معاملہ میں دعا ہی اہم اور ضروری ہے۔زندگی کے بہت سے معاملات ایسے ہیں جن میں ظاہری اسباب یا تدابیر اختیار کرنا ممکن ہی نہیں مثلاً آفات سماوی جیسے زلزلہ، طوفان، بادوباراں، سیلاب، خشک سالی(بارش کا نہ ہونا)وغیرہ۔ غور فرمائیے، ایسے حوادث سے بچنے کے لئے بے شمار دعاؤں کی تعلیم دی گئی ہے۔ احادیث میں بنی اسرائیل کے تین افراد کا واقعہ آتا ہے کہ چٹان غار کے سامنے آگری۔ اس صورت حال میں یا اس سے ملتے جلتے دوسرے واقعات میں دعا کے علاوہ کون سی تدابیر یا وسائل اختیار کئے جاسکتے ہیں؟ کوئی شخص بدترین بڑھاپے کی عمر(ارذل العمر)پسند نہیں کرتا لیکن اس سے بچنے کے لئے کون سے اسباب یا وسائل اختیار کئے جاسکتے ہیں۔سوائے اس دعا کے جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سکھلائی ہے؟جس طرح بہت سے معاملات ایسے ہوتے ہیں جن میں انسان اپنی ہمت اور عقل کے مطابق دنیا بھر کی تدابیر اور وسائل آزمانے کے باوجود حصول مقصد میں ناکام رہتا ہے اور چاروناچار اسے دعا کی طرف رجوع کرنا پڑتا ہے۔ مثلاً ہر دیندار اور پرہیزگار آدمی یہ چاہتا ہے کہ اس کی اولاد صالح، متقی اور والدین کی فرمانبردار بنے، اگر خدانخواستہ ایسا نہ ہوتو والدین اپنی اولاد کی اصلاح کے لئے ہر وہ تدبیر اور جتن کر گزرتے ہیں جو ان کے بس میں ہو۔ لیکن بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ والدین کی ساری کی ساری تدبیریں اور کوششیں دھری کی دھری رہ جاتی ہیں اور معاملہ یہاں آکر ختم ہوتا ہے کہ اب اللہ سے دعا کی جائے کہ وہ ہماری اولاد کو ہدایت دے اور ان کی اصلاح فرمائے۔ میڈیکل سائنس بلاشبہ بہت ترقی کر چکی ہے لیکن اب بھی کتنی بیماریاں ایسی ہیں جن کا علاج ابھی تک دریافت نہیں ہوسکا۔ایسی بیماریوں کی تو بات ہی دوسری ہے کہ ان کا دعا کے علاوہ کوئی علاج ہے ہی نہیں لیکن وہ بیماریاں جن کا علاج دریافت ہو چکا ہے ان کے مریضوں میں سے بھی بے شمار مریض ایسے ہوتے ہیں جو دنیا بھر کے بڑے بڑے ممالک میں جاکر جدید ترین علاج کروا دیکھتے ہیں لیکن آخری چارہ کار یہی ہوتا ہے کہ ساری دنیا چھان ماری ہے کہیں سے شفأ نصیب نہیں ہوئی، اللہ سے دعا کیجئے کہ صحت عطا فرمائے۔بعض اوقات آدمی نادانستہ طور پر ایسے فتنوں میں پھنس جاتا ہے کہ ان سے نکلنے کی تمام تدابیر اور