کتاب: دعا کے مسائل - صفحہ 16
دعا اور تقدیر: تقدیر کے بارے میں پائی جانے والی بے شمار الجھنیں دراصل تقدیر کے بارے میں پائے جانے والے غلط مفہوم کے باعث پیدا ہوتی ہیں۔تقدیر کا صحیح مفہوم سمجھنے کے لئے درج ذیل امور پیش نظر رہنے چاہئیں۔ 1 تقدیر کا لغوی معنی اندازہ(guess)لگانا ہے۔ 2 اللہ تعالیٰ کا علم اس قدر وسیع اور لامحدود ہے کہ ماضی،حال اور مستقبل، غائب اور حاضر، دن یا رات، روشنی تاریکی کی اصطلاحات اس کے لئے بالکل بے معنی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے لئے ہر چیز ایک کھلی کتاب کی طرح ہے۔ 3 اللہ کا علم وسیع اور لامحدود ہونے کی وجہ سے اس قدر یقینی ہے کہ اپنی مخلوق کے بارے میں اس کا لگایا ہوا اندازہ یا لکھی ہوئی تقدیر کبھی غلط نہیں ہوسکتی۔ 4 اللہ تعالیٰ کا اپنی مخلوق کے بارے میں اندازہ لگانایا تقدیر لکھنا مخلوق کو کسی بات پر مجبور نہیں کرتا،جس طرح امتحان سے قبل کسی استاد کا اپنے شاگرد کے بارے میں یہ اندازہ لگانا کہ فلاں فلاں شاگرد فیل ہوگا یا فلاں فلاں پاس ہوگا۔ کسی شاگرد کو فیل یا پاس ہونے پر مجبورنہیں کرتا خواہ وہ اندازہ امتحان کے بعد سو فیصد درست ہی کیوں نہ ہو اسی طرح اللہ تعالیٰ کا اپنی مخلوق کے بارے میں اندازہ لگانا یا تقدیر لکھنا کسی کو کسی فعل پر ہرگز مجبور نہیں کرتا۔ 5 کسی شخص کی تقدیر لکھنے کے بعد کیا اللہ تعالیٰ اس تقدیر کو من و عن نافذ کرنے پر مجبور ہے یا اسے بدلنے پر قادر ہے؟ جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فیصلوں کو بدلنے پر پوری طرح قادر ہے اور یہ بات رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعض دعاؤں سے ثابت ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ بعض فیصلوں کو یقینا بدلتے ہیں۔ دعائے قنوت میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ الفاظ ثابت ہیں((وَقِنِیْ شَرَّ مَا قَضَیْتَ))’’مجھے اس برائی سے بچالے جس کا تونے فیصلہ کیا ہے۔‘‘(بحوالہ ترمذی، ابوداؤد،نسائی)ایک دوسری حدیث کے الفاظ یہ ہیں((اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنْ سُوْئِ الْقَضَائِ))’’یا اللہ! ہم برے فیصلہ سے تیری پناہ چاہتے ہیں۔‘‘(بخاری و مسلم)اگر اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کے بارے میں پہلے سے کئے ہوئے فیصلوں کو بدلنے پر قادر نہیں تو ان دعاؤں کے الفاظ بالکل بے معنی اور بے مقصد ہو کر رہ جاتے۔ پس ان الفاظ کا صاف اور سیدھا مطلب یہی ہے کہ دعاؤں کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ