کتاب: دعا کے مسائل - صفحہ 15
کی ساری ضرورتیں اور حاجتیں پوری کرتی ہے تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ اس کے اپنے بندے جب اس سے کوئی چیز مانگیں تو وہ نہ دے؟ جس طرح یہ عقیدہ باطل ہے کہ اللہ تعالیٰ گنہگاروں کی دعا قبول نہیں کرتا اسی طرح یہ عقیدہ بھی باطل ہے کہ اللہ تعالیٰ بزرگوں کی دعا کبھی رد نہیں کرتا۔ حضرت نوح علیہ السلام نے بیٹے کو طوفان میں غرق ہوتے دیکھا۔ تو اللہ تعالیٰ سے دعا کی﴿رَبِّ اِنَّ ابْنِیْ مِنْ اَھْلِیْ وَاِنَّ وَعْدَکَ الْحَقُّ وَاَنْتَ اَحْکَمُ الْحَاکِمِیْنَ﴾ ’’اے میرے رب! میرا بیٹا میرے گھروالوں سے ہے اور تیرا وعدہ سچا ہے(لہٰذا اسے بچالے)تو سب حاکموں سے بڑا حاکم ہے۔‘‘(سورۃ ہود، آیت نمبر45)اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح علیہ السلام کی یہ دعا نہ صرف یہ کہ رد فرما دی بلکہ ساتھ یہ بھی ارشاد فرمایا﴿اِنِّیْ اَعِظُکَ اَنْ تَکُوْنَ مِنَ الْجَاھِلِیْنَ﴾ ’’اے نوح ! میں تجھے نصیحت کرتا ہوں کہ اپنے آپ کو جاہلوں کی طرح نہ بنالے۔‘‘(سورہ ہود، آیت نمبر46) قیامت کے دن حضرت ابراہیم علیہ السلام اللہ تعالیٰ سے عرض کریں گے۔’’اے میرے رب! تونے مجھ سے وعدہ فرمایا تھا کہ قیامت کے دن مجھے رسوا نہیں کرے گا، لیکن تیری رسوائی اس سے زیادہ کیا ہوسکتی ہے کہ میرا باپ تیری رحمت سے محروم ہے۔‘‘اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا۔’’میں نے جنت کافروں کے لئے حرام کر دی ہے۔‘‘چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی خواہش کو ردکرتے ہوئے اللہ تعالیٰ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد کو بجو بنا کر جہنم میں ڈال دے گا۔(بخاری شریف)رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کے لئے تین دعائیں کیں:1میری امت قحط سے ہلاک نہ ہو2میری امت غرق عام سے ہلاک نہ ہو3میری امت میں خانہ جنگی نہ ہو۔اللہ تعالیٰ نے پہلی دو دعائیں تو قبول فرمالیں لیکن تیسری دعا قبول نہیں فرمائی۔(مسلم) پس یہ سمجھنا کہ اللہ تعالیٰ کسی نبی، ولی یا بزرگ کی دعا کبھی رد نہیں کرتا بالکل باطل عقیدہ ہے جبکہ صحیح اسلامی عقیدہ یہ ہے کہ: اولاً : ہر شخص کو اپنے لئے خود اللہ تعالیٰ سے دعا مانگنی چاہئے کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کا واضح حکم ہے جبکہ کسی نیک آدمی سے دعا کروانا جائز تو ہے لیکن اس کا حکم کہیں بھی نہیں دیا گیا۔ ثانیاً : قبولیت دعا کا انحصار مکمل طور پر اللہ تعالیٰ کی مرضی اور مصلحت پر ہے وہ جب چاہے جس کی چاہے اور جتنی چاہے دعا قبول کرے، جس کی چاہے ردکر دے۔