کتاب: دعا کے مسائل - صفحہ 13
فریاد تجھی سے کرتا ہوں، توہی میرا مالک ہے،آخر مجھے کس کے حوالے کرنے والا ہے، کیا اس حریف بیگانہ کے جو مجھ سے ترش روئی روا رکھتا ہے یا ایسے دشمن کے جو میرے معاملے پر قابو رکھتا ہے۔ لیکن اگرمجھ پر تیرا غضب نہیں تو پھر مجھے کچھ پرواہ نہیں، بس تیری عافیت میرے لئے زیادہ وسعت رکھتی ہے۔میں اس بات کے مقابلے میں کہ تیرا غضب مجھ پر پڑے یا تیرا عذاب مجھ پرآئے،تیرے ہی نوروجمال کی پناہ طلب کرتا ہوں جس سے ساری تاریکیاں روشن ہو جاتی ہیں اور جس کے ذریعے دین و دنیا کے سارے معاملات سنور جاتے ہیں۔مجھے تو تیری رضا مندی اور خوشنودی کی طلب ہے۔ بجز تیرے کہیں سے کوئی قوت و طاقت نہیں مل سکتی۔‘‘(سیرت ابن ہشام‘ بحوالہ محسن انسانیت) بظاہر جب تمام سہارے ٹوٹ چکے تھے۔امید کی کوئی کرن دکھائی نہیں دیتی تھی۔ مکہ اور طائف کے سرداروں نے ظلم و ستم اور سنگدلی کی انتہا کر دی تھی۔ہر طرف یاس انگیز فضا مسلط تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے زخمی اور ٹوٹے دل کا حال ایک انتہائی رقت انگیز دعا کی شکل میں مالک حقیقی کے سامنے رکھ دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ دعاعرش الٰہی سے پے در پے فتح و نصرت کی نویدیں لے کر آئی۔ گھٹا ٹوپ اندھیروں سے نور سحر کے آثار ہویدا ہونے لگے۔ اسی سفر میں جنوں کی ایک جماعت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے قرآن سن کر ایمان لے آئی۔ معراج آسمانی کے ذریعے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قرب الٰہی کا انتہائی بلند مقام عطا کیا گیا۔ یکے بعد دیگرے بیعت عقبۂ اُولیٰ اور بیعت عقبہ ثانیہ عمل میں آئیں جو روشن مستقبل کے لئے سنگ بنیاد ثابت ہوئیں۔ حقیقت یہ ہے کہ زندگی میں آنے والے مصائب و آلام، رنج و غم اور مشکلات، خواہ انفرادی سطح کے ہوں یا اجتماعی سطح کے، ان سے نجات حاصل کرنے کے لئے دعا سے زیادہ مؤثر اور قابل اعتماد ہتھیار کوئی نہیں ہوسکتا۔ جو شخص کشمکش حیات میں دعا کے بغیر زندگی بسر کر رہا ہے اس کا انجام اس سپاہی سے مختلف نہیں ہوسکتا جو گھمسان کی جنگ میں حصہ لینے کے لئے ہتھیار کے بغیر میدان جنگ میں گھس جائے۔ دعا کے بارے میں ایک غلط فہمی کا ازالہ: قبولیت دعا کے بارے میں بعض لوگ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ گناہگار لوگوں کی دعا قبول نہیں کرتا اوربزرگوں کی دعا کبھی رد نہیں کرتا۔ اس عقیدۂ کے نتیجے میں جو صورتحال پیدا ہوتی ہے وہ کچھ یوں ہے۔