کتاب: دعا کے آداب و شرائط کتاب وسنت کی روشنی میں - صفحہ 76
کرو،اس سے ڈرتے ہوئے اور امید وار رہتے ہوئے،بے شک اللہ کی رحمت نیکو کاروں سے قریب ہے۔ چنانچہ جب تک بندہ دعاء میں الحاح وزاری کرتا ہے اور قبولیت کا امید وار رہتا ہے،تب تک دعاء کی قبولیت سے قریب ہوتا ہے،اور جو مسلسل دروازے پر دستک دیتا ہے امید ہے کہ اس کے لئے دروازہ کھول ہی دیا جائے ۔[1] اور کبھی کبھی دعاء کی قبولیت ایک مدت دراز تک موخر کی جاتی ہے،جیسا کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے حضرت یعقوب علیہ السلام کے بیٹے حضرت یوسف علیہ السلام کو ان کی جانب لوٹانے کے سلسلہ میں ان کی دعاء کی قبولیت موخر فرمائی،جبکہ وہ ایک معزز نبی تھے،اور جیسا کہ اللہ نے تکلیف کے دور کرنے کے سلسلہ میں اپنے نبی حضرت ایوب علیہ السلام کی دعاء کی قبولیت کو موخر فرمایا،اور کبھی سائل کو اس کے سوال سے بہتر چیزسے نوازا جاتا ہے،اور کبھی سائل کے سوال سے افضل‘ اس پر آنے والے کسی شر کو اس سے پھیر دیا جاتا ہے ۔[2]
[1] جامع العلوم والحکم،۲/۴۰۴۔ [2] دیکھئے: مجموع فتاوی العلامۃ ابن باز رحمہ اللہ ،جمع وترتیب : علامہ الطیار،۱/۲۶۱۔