کتاب: دعا کے آداب و شرائط کتاب وسنت کی روشنی میں - صفحہ 74
يَسْتَجِبْ لِي ‘‘[1] تم میں سے کسی کی بھی دعاء اس وقت تک قبول ہوتی رہتی ہے جب تک وہ جلد بازی کرتے ہوئے یہ نہ کہہ دے کہ ’میں نے دعاء کی تو میری دعاء قبول نہ ہوئی‘۔ اور انہی سے مروی ہے،وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ’’ لا يَزالُ يُسْتَجابُ لِلْعَبْدِ،ما لَمْ يَدْعُ بإثْمٍ،أَوْ قَطِيعَةِ رَحِمٍ،ما لَمْ يَسْتَعْجِلْ قيلَ: يا رَسُولَ اللّٰہِ،ما الاسْتِعْجالُ؟ قالَ: يقولُ: قدْ دَعَوْتُ وَقَدْ دَعَوْتُ،فَلَمْ أَرَ يَسْتَجِيبُ لِي،فَيَسْتَحْسِرُ([2])عِنْدَ ذلكَ وَيَدَعُ الدُّعاءَ ‘‘[3] بندے کی دعاء برابر قبول ہوتی رہتی ہے جب تک وہ گناہ یا قطع رحمی کی دعاء نہ کرے اور جب تک جلد بازی نہ کرے،پوچھا گیا: اے اللہ کے
[1] البخاری،حدیث نمبر:(۶۳۴۰)،ومسلم،حدیث نمبر:(۲۷۳۵)۔ [2] ’’یستحسر‘‘ کا مفہوم یہ ہے کہ دعاء کرنا بند کر دیتا ہے،اسی سے ارشاد باری ہے:﴿ لَا يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِهِ وَلَا يَسْتَحْسِرُونَ ﴾یعنی’اسے پکارنے سے تکبر نہیں کرتے اور نہ ہی دعاء کرنا بند کرتے ہیں ‘دیکھئے: شرح النووی،اور فتح الباری،۱۱/۱۴۱ ۔ [3] مسلم،۴/۲۰۹۶۔