کتاب: دعا کے آداب و شرائط کتاب وسنت کی روشنی میں - صفحہ 69
اس حدیث کے مفہوم کے بارے میں کہا گیا ہے جیسا کہ حافظ ابن رجب رحمہ اللہ نے ذکر فرمایاہے کہ:’’اللہ تعالیٰ صرف انہی اعمال کو قبول کرتا ہے جو تمام برائیوں سے پاک و صاف ہوں جیسے،ریاء،عجب اور تکبر وغیرہ‘ اور صرف انہی مالوں کو قبول فرماتا ہے جو پاکیزہ اور حلال ہوں ،کیونکہ پاکیزگی کے وصف سے تمام اعمال،اقوال اور اعتقادات متصف کئے جائیں گے۔‘‘[1] اس سے مراد یہ ہے کہ تمام رسولوں اور ان کی امتوں کو حلال اور پاکیزہ کھانے اور گندی اور حرام چیزوں سے بچنے اور دور رہنے کا حکم دیا گیا ہے،پھر حدیث کے اخیر میں آپ نے کھانے ،پینے،پہننے اور غذاؤں میں حرام میں وسعت برتنے کے ساتھ دعاء کی قبولیت کے بعید تر ہونے کا ذکر فرمایا ہے۔ اسی لئے صحابۂ کرام اور صالحین امت حلال کھانے اور حرام سے اجتناب کرنے کے انتہائی حریص تھے،چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے وہ فرماتی ہیں :’’حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کا ایک غلام تھا جو آپ کو ٹیکس دیا کرتا تھا،اور آپ اس کے ٹیکس سے کھا تے تھے ۔[2] وہ غلام ایک روز کوئی چیز
[1] جامع العلوم والحکم،۱/۲۵۹۔ [2] یعنی وہ غلام آپ کو اپنی کمائی لاکر دیتا تھا،اور ’’خراج‘‘ اس مال کو کہتے ہیں جسے آقا اپنے غلام کی کمائی سے طلب کرتا ہے،فتح الباری،۷/۱۵۴۔