کتاب: دعا کے آداب و شرائط کتاب وسنت کی روشنی میں - صفحہ 61
وكانَ عَرْشُهُ على الماءِ،وبِيَدِهِ المِيزانُ يَخْفِضُ ويَرْفَعُ ‘‘[1] اللہ تعالیٰ کا ہاتھ بھرا ہوا ہے،روز وشب کے مسلسل خرچ سے اس میں کوئی کمی نہیں آتی،کیا تم سوچتے ہو کہ اللہ تعالیٰ نے جب سے آسمان و زمین کی تخلیق فرمائی ہے کتنا خرچ کیا ہے،پھر بھی جو کچھ اس کے ہاتھ میں ہے اس میں کوئی کمی نہ آئی،اور اس کا عرش پانی پر تھا اور اس کے ہاتھ میں میزان(عدل)ہے وہ اسے جھکاتا اور بلند کرتاہے۔ جب مسلمان کو اس چیز کا علم ہو گیا تو اسے چاہئے کہ سابقہ دلائل کی روشنی میں اللہ عز وجل سے اس حال میں دعا کرے کہ اسے قبولیت کا یقین ہو،نیز حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث کی بنا پرجسے وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’ ادعُوا اللّٰہَ وأنتم مُوقِنُون بالإجابةِ ....‘‘[2]
[1] بخاری(انہی الفاظ کے ساتھ)،بروایت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ،حدیث نمبر:(۴۶۸۴)،ومسلم(اسی کے ہم معنیٰ)،حدیث نمبر:(۹۹۳)،اور امام ترمذي نے:’’یمین الرحمن ملأی‘‘ کے الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے ،حدیث نمبر:(۳۰۴۵)۔ [2] ترمذی،۵/۵۱۷،اس روایت کو علامہ شیخ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ نے سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ میں(حدیث نمبر:۵۹۴)اور صحیح الترمذی میں(حدیث نمبر:۲۷۶۶)حسن قرار دیا ہے۔و احمد،۲/۱۷۷،وحاکم،۱/۴۹۳۔