کتاب: دعا کے آداب و شرائط کتاب وسنت کی روشنی میں - صفحہ 27
نَّفْعِہِ لَبِئْسَ الْمَوْلَی وَلَبِئْسَ الْعَشِیْرُ﴾ [1]
بعض لوگ ایسے بھی ہیں کہ ایک کنارے پر(کھڑے)ہوکر اللہ کی عبادت کرتے ہیں ،اگر کوئی نفع مل گیا تو دل چسپی لینے لگتے ہیں ،اور اگر کوئی آفت آگئی تو اسی وقت منہ پھیر لیتے ہیں ،انھوں نے دونوں جہان کا نقصان اٹھالیا،واقعی یہ کھلا نقصان ہے،اللہ کے سوا انہیں پکارتے ہیں جو نہ انہیں نقصان پہنچا سکیں نہ نفع،یہی تو دور دراز کی گمراہی ہے،اسے پکارتے ہیں جس کا نقصان اس کے نفع سے زیادہ قریب ہے،یقینا برے والی ہیں اور برے ساتھی۔
نیز ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿ یَاْ أَیُّھَاْ النَّاْسُ ضُرِبَ مَثَلٌ فَاسْتَمِعُوْا لَہُ إِنَّ الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ لَنْ یَخْلُقُوْا ذُبَاْباً وَّلَوِ اجْتَمَعُوْا لَہُ وَ إِنْ یَّسْلُبْھُمُ الذُّبَاْبُ شَیْئاً لَّاْیَسْتَنْقِذُوْہُ مِنْہُ ضَعُفَ الطَّاْلِبُ وَالْمَطْلُوْبُ،مَاْ قَدَرُوْا اللّٰہَ حَقَّ قَدْرِہٖ إِنَّ اللّٰہَ لَقَوِيٌّ عَزِیْزٌ﴾[2]
[1] سورۃ الحج: ۱۱ تا۱۳۔
[2] سورۃ الحج: ۷۳،۷۴۔