کتاب: دعا کے آداب و شرائط کتاب وسنت کی روشنی میں - صفحہ 255
لقیتني لا تشرک بي شیئاً لأتیتک بقرابھا مغفرۃ‘‘[1] اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اے ابن آدم !جب تک تو مجھے پکارتا رہے گا اور مجھ سے امیدیں وابستہ کئے رہے گا میں تجھے بخشتا رہوں گا‘ چاہے تیرا عمل کیسا بھی ہو اور میں کوئی پروانہیں کروں گا،اے ابن آدم !اگر تیرے گناہ آسمان کی بلندیوں تک پہنچ جائیں پھر تو مجھ سے بخشش مانگے تو میں تجھے بخش دوں گا اور کوئی پروا نہ کروں گا،اے آدم کے بیٹے !اگر تو میرے پاس زمین بھر گناہ لے کر آئے اور پھر تو مجھ سے اس حال میں ملے کہ تو نے میرے ساتھ کچھ بھی شریک نہ کیا ہو،تو میں تیرے پاس زمین(کی وسعتوں)بھر بخشش لے کر آؤں گا۔ اکثر و بیشتر استغفار کو توبہ کے ساتھ ذکر کیا جاتا ہے ،ایسی صورت میں استغفار محض زبانی طور پر بخشش طلبی سے عبارت ہوتا ہے،اور توبہ قلوب و جوارح کے ذریعہ گناہوں کے ترک کرنے سے عبارت ہوتا ہے۔
[1] ترمذي ۴/۱۲۲،ودارمی ۲/۲۳۰،اور شیخ البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح الجامع(۵/۵۴۸)میں حسن قرار دیا ہے،نیز دیکھئے: تحفۃ الأحوذي ۹/۵۲۵،وجامع العلوم والحکم ۲/۴۰۰- ۴۱۸۔