کتاب: دعا کے آداب و شرائط کتاب وسنت کی روشنی میں - صفحہ 23
جیسے کسی بندے سے ہو،اور وہ زندہ ‘حاضر‘ اور اس چیز پر قادر ہو تو ایسا کرنا شرک نہیں ہے،مثلاً کسی سے کہیں ’مجھے پانی پلا دو‘ یا ’اے فلان مجھے کھانا دیدو‘ وغیرہ تو اس میں کوئی حرج نہیں ،اور اسی لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ:
’’ مَنْ سَأَلَ بِاللّٰہِ فَأَعْطُوهُ وَمَنْ دَعَاكُمْ فَأَجِيبُوهُ وَمَنْ صَنَعَ إِلَيْكُمْ مَعْرُوفًا فَكَافِئُوهُ فَإِنْ لَمْ تَجِدُوا مَا تُكَافِئُونَهُ فَادْعُوا لَهُ حَتَّى تَرَوْا أَنَّكُمْ قَدْ كَافَأْتُمُوهُ ‘‘[1]
جو اللہ کے واسطے سے مانگے اسے دو،اور جو اللہ کے واسطے سے پناہ طلب کرے اسے پناہ دو،اور جو تمہیں دعوت دے اس کی دعوت کو قبول کرو،اور جو تمہارے ساتھ بھلائی کرے اسے بدلہ دے کر اس کی بھر پور تلافی کرو،اور اگر تمہارے پاس تلافی کے لئے کچھ نہ ہو تو اس کے لئے دعا کرو یہاں تک کہ تم جان لو کہ تم نے اس کی بھر پور تلافی کر دی ہے۔
[1] ابوداؤد،حدیث نمبر(۱۶۷۲)،ونسائی،۵/۸۲،و مسنداحمد ،۲/۶۸،۹۹،نیز دیکھئے: التعلیق المفید علی کتاب التوحید لسماحۃ الشیخ العلامۃ ابن باز،ص:۹۱ و ۲۴۵۔