کتاب: دوستی اور دشمنی (کتاب و سنت کی روشنی میں) - صفحہ 8
المجادلہ،سورہ الحشر وغیرہ۔عقیدہ اَلْوَلاَء وَ الْبَرَائ کی بنیاد چونکہ کلمہ توحید … لاَ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ … ہے اس لئے بعض اہل علم کے نزدیک عقیدہ توحید کے بعد قرآن مجید میں جس چیز پر سب سے زیادہ زوردیا گیا ہے وہ عقیدہ اَلْوَلاَء وَالْبَرَاء ہی ہے اس سے عقیدہ اَلْوَلاَء وَالْبَرَاء کی اہمیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ ذیل میں ہم پہلے اَلْوَلاَء کے حوالہ سے اللہ تعالیٰ سے محبت،پھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت اور اس کے بعد اہل ایمان سے محبت کے بارے میں باری باری اپنی گزارشات پیش کریں گے۔ اللہ تعالیٰ سے محبت: اللہ تعالیٰ انسان کے خالق،مالک اور رازق ہیں اللہ تعالیٰ نے انسان کی تخلیق صرف اپنی عبادت اور بندگی کے لئے فرمائی ہے،ارشاد باری تعالیٰ ہے﴿وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلاَّ لِیَعْبُدُوْنِ﴾ ترجمہ:’’میں نے جن وانس کو صرف اپنی عبادت کے لئے پیدا کیاہے۔‘‘(سورہ الذاریات،آیت نمبر56) اہل ِعلم کے نزدیک انسان کا کوئی عمل اس وقت تک مکمل عبادت نہیں بن سکتاجب تک اس میں درج ذیل تین اوصاف شامل نہ ہوں،انتہائی ذلت اور عاجزی¢ انتہائی محبت اور خلوص£ انتہائی خوف اور ڈر۔پس اللہ تعالیٰ کی عبادت اور بندگی خود اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ جہاں اللہ تعالیٰ کے حضور عاجزی اور ذلّت اختیار کی جائے،اس کی پکڑ اور عذاب کا خوف محسوس کیاجائے وہاں اس کے ساتھ شدید محبت اور چاہت بھی پیدا کی جائے۔سورہ الانبیاء میں اللہ تعالیٰ نے مختلف انبیاء کرام علیہم السلام کے واقعات بیان کرنے کے بعد یہ بات ارشاد فرمائی ہے: ﴿اِنَّہُمْ کَانُوْا یُسَارِعُوْنَ فِیْ الْخَیْرَاتِ وَیَدْعُوْنَنَا رَغَبًا وَّرَہَبًا وَکَانُوْا لَنَا خَاشِعِیْنَ﴾ ’’ یہ لوگ نیکی کے کاموں میں دوڑ دھوپ کرتے تھے اور ہمیں چاہت اور خوف کے ساتھ پکارتے تھے اور ہمارے سامنے عاجزی اختیار کرنے والے تھے۔‘‘(سورہ الانبیاء،آیت نمبر90)یعنی انبیاء کرام کی عبادت میں عاجزی اور خوف کے ساتھ محبت اور چاہت بھی شامل تھی،جو کہ عقیدہ الولاء کی بنیاد ہے۔ قرآن مجیدمیں اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کی یہ صفت بیان فرمائی ہے کہ وہ دنیا کی ہر چیز سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ سے محبت کرتے ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰہِ﴾ ’’وہ لوگ جو ایمان لائے ہیں وہ سب سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ سے محبت کرتے ہیں۔‘‘(سورہ