کتاب: دوستی اور دشمنی (کتاب و سنت کی روشنی میں) - صفحہ 70
کے۔تاریخ میں ان دو گروہوں کے درمیان کبھی حقیقی دوستی یا اتحاد نہیں ہوا۔اگر حالات کے جبر نے کبھی دونوں گروہوں کو اکٹھا کیا بھی تو ان کا اتحاد عارضی ثابت ہوا۔جیسا کہ عہد نبوی میں مسلمانوں نے اہل کتاب سے اتحاد کے معاہدات کئے۔لیکن جیسے ہی اہل کتاب کو غلبہ اسلام کا کھٹکا محسوس ہوا تو انہوں نے معاہدات سے غداری کرنے اور اپنے فطری حلیفوں یعنی کفار و مشرکین کے ساتھ ملنے میں لمحہ بھرکی تاخیر نہیں کی۔قیامت کے بارے میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئیوں میں سے ایک یہ ہے کہ مسلمان اور عیسائی مل کر ایک مشترکہ دشمن(اغلباً یہود)کے خلاف جنگ کریں گے۔مسلمانوں اور عیسائیوں کو فتح ہوگی۔فتح کے بعد عیسائی کمانڈر اعلان کرے گا کہ یہ فتح صلیب کی برکت سے ہوئی ہے۔اس کے جواب میں ایک غیرت مند مسلمان کمانڈر اس صلیب کو توڑڈالے گا یا اس عیسائی کمانڈر کو تھپڑ مارے گا جس کے نتیجے میں مسلمان اور عیسائیوں کا اتحاد ختم ہوجائے گا اور عارضی حلیف پھر ایک دوسرے کے حریف بن جائیں گے۔پس مسلمانوں اور کافروں کا ایک دوسرے کا دشمن ہونا ایسی ٹھوس حقیقت ہے جس سے انکار کرنا اپنے آپ کو دھوکا دینا ہے۔کتاب کے پہلے حصہ میں قرآنی آیات کے حوالہ سے اسی بات کو واضح کیا گیا ہے۔ دوسرے حصے کا عنوان ہے ’’الولاء‘‘جس میں اللہ تعالیٰ،رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور تمام اہل ایمان سے دوستی اور محبت کرنے کے وجوب پر کتاب و سنت سے دلائل دیئے گئے ہیں،نیز اس کی فضیلت اور تقاضوں کو واضح کیا گیا ہے۔ تیسرے حصے کا عنوان ہے ’’ البراء‘‘جس میں کفار سے بیزاری،نفرت اور دشمنی رکھنے کے وجوب پر کتاب و سنت سے دلائل دیئے گئے ہیں نیز کفار سے براء ت نہ کرنے کا نقصان اور براء ت کے تقاضے بیان کئے گئے ہیں۔ چوتھے حصے کا عنوان ہے ’’بے ضرر کفار سے حسن سلوک‘‘اس حصہ میں کتاب و سنت کے حوالے سے یہ واضح کیا گیاہے کہ مسلمانوں سے دشمنی نہ رکھنے والے کفار سے اسلام نے نیکی اور حسن سلوک کا حکم دیا ہے۔اسلام کے یہی عادلانہ اور منصفانہ احکام اس بات کا ثبوت ہیں کہ یہ دین اللہ تعالیٰ کا نازل کردہ دین ہے جو بنی نوع انسان کو ظلم،جبر،زیادتی اور عدوان سے نجات دلانے والا اور امن وسلامتی کی ضمانت مہیا کرنے والا دین ہے۔ گزشتہ چند دھائیوں سے حصولِ کثرت کی دوڑنے ہر طرف نفسا نفسی کا عالم پیدا کررکھا ہے۔مادہ