کتاب: دوستی اور دشمنی (کتاب و سنت کی روشنی میں) - صفحہ 68
امریکہ کو انٹیلی جنس اور نقل و حرکت کے بارے میں معلومات فراہم کرنا،افغانستان سے سفارتی تعلقات منقطع کرنا،جنگ کے بعد مجاہدین کو گرفتار کرکے امریکہ کے حوالے کرنا،پاکستان کے اندر ایف بی آئی کو گھروں میں چھاپے مارنے کی اجازت دینا،مساجد اور مدارس میں داخل ہونے کی اجازت دینا،امریکہ کو پاکستان کے اندر تفتیشی مراکز قائم کرنے کی اجازت دینا،کشمیری مجاہدین کی حمایت سے ہاتھ کھینچ لینا،ان کے کیمپ اور دفاتر بند کردینا،ان سے مالی تعاون کرنے والوں پر پابندیاں لگانا،قبائلی علاقوں میں برسوں سے رہائش پذیر مجاہدین کے گھروں پر بمباری کرنا،انہیں پناہ دینے والے محب وطن قبائلیوں کے ساتھ ملک دشمنوں جیسا سلوک کرنا،یہ ساری باتیں عقیدہ الولاء والبراء کے خلاف ہیں۔ہمیں اللہ اور اس کے رسول نے مسلمانوں کی مدد و حمایت کرنے اور کفار سے قطع تعلق اور دشمنی کرنے کا حکم دیا تھا لیکن ہم نے اس کے بالکل برعکس طرز عمل اختیار کیا۔کفار کی نصرت اور حمایت کی،مسلمانوں سے قطع تعلق اور دشمنی کا راستہ اختیار کیا جس کے نتیجہ میں آج ہم دن بدن نہیں بلکہ لمحہ بہ لمحہ مشکلات اور مصائب کی دلدل میں دھنستے چلے جارہے ہیں۔اس انتہائی مایوس کن صورت حال سے نجات کا راستہ صرف ایک ہی ہے کہ ہم عقیدہ الولاء والبراء کی طرف پلٹ آئیں۔مسلمانوں کی نصرت اور حمایت کا راستہ اختیار کریں،کفار سے نفرت،بیزاری،قطع تعلق اور دشمنی کا واضح اور دو وٹوک اعلان کریں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ افغانستان پر قبضہ کرنے کے بعد عراق پر حملہ کرنے کے لئے بھی کفار کو مسلم ممالک نے ہی سہولتیں فراہم کیں۔مسلمانوں کے باہمی اختلاف،انتشار اور عدم تعاون نے ہی کفار کو آگے بڑھنے کا موقع دیا۔اگر مسلمان ممالک کی خارجہ پالیسیاں عقیدہ الولاء والبراء پر استوار ہوتیں،تمام مسلمان ممالک کے درمیان اتحاد و اتفاق کا جذبہ موجود ہوتا،تمام مسلم ممالک ایک دوسرے کے معاون و مدد گار بنتے اور کفار کے مقابلے میں بنیان مرصوص ہوتے تو کفار کو مسلمانوں کی طرف آنکھ اٹھا کردیکھنے کی ہمت بھی نہ ہوتی۔اب بھی عالمی سطح پر کفار کی دہشت گردی،درندگی اور سفاکی کو روکنے کا صرف ایک ہی راستہ ہے کہ تمام مسلمان ممالک عقیدہ ’’الولاء والبراء ‘‘ پر عمل کریں۔اگر مسلمان ممالک ایسا نہیں کریں گے تو ایک ایک کرکے اسی طرح پٹتے چلے جائیں گے جس طرح افغانستان اور عراق پٹ چکے ہیں۔ وطن عزیز پاکستان کے حکمرانوں کو کسی غلط فہمی میں نہیں رہنا چاہئے کہ وہ کفار کے مطالبات سر بسر تسلیم کرتے چلے جانے سے بچ جائیں گے۔کفار کے مطالبات کا سلسلہ اس وقت تک ختم نہیں ہوگا جب