کتاب: دوستی اور دشمنی (کتاب و سنت کی روشنی میں) - صفحہ 65
والا آتش وآہن کاطوفان صرف اور صرف اسلام کے خلاف تھااور اس کا مقصد پوری دنیا میں مسلمانوں کو مغلوب کرنااور بالآخر مسلمان ممالک میں اپنی بے خدا تہذیب کو مسلط کرنا تھا۔چند حقائق پیش خدمت ہیں۔ 1 11ستمبر2001ء کے حادثہ کے فورا بعد امریکی صدربش نے خطاب کرتے ہوئے واضح الفاظ میں کہاتھا’’دہشت گردوں کے خلاف ہم نے طویل صلیبی جنگ شروع کردی ہے۔‘‘[1] اگرچہ اس وقت مسلمانوں کو دھوکہ دینے کے لئے کہا گیا کہ یہ زبان کی لغزش تھی لیکن بعد کے حالات نے ثابت کردیا کہ یہ زبان کی لغزش نہیں بلکہ حقیقت تھی۔ 2 امریکی وزیر خارجہ کولن پاول نے تحقیقاتی کمیشن کے سامنے تین سال بعد پھر واضح الفاظ میں یہ اعتراف کیاہے کہ ’’ان کے ملک نے افغانستان کے خلاف صلیبی جنگ شروع کی تھی۔‘‘[2] 3 بی بی سی کوانٹرویودیتے ہوئے امریکی صدربش نے کہاہے’’غیر ملکی مجاہدین عراق میں اسلامی حکومت قائم کرناچاہتے ہیں ہم ان کا تعاقب جاری رکھیں گے۔‘‘[3] 4 ’’ایران کو ایٹم بم نہیں بنانے دیں گے عالمی برادری کے لئے ایران کا ایٹمی پروگرام سنگین چیلنج ہے۔‘‘ امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان کا بیان۔[4] 5 امریکی وبرطانوی افواج نے عراقی مساجد میں جہادکے بارے میں قرآنی آیات کی تلاوت،ترجمہ اور تشریح پرپابندی لگادی ہے۔[5] 6 ’’دنیاسے دہشت گردی ختم کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ مسلمانوں کی کتاب ’’قرآن ‘‘کوختم کردیا جائے۔‘‘ ہفت روزہ نیوزویک کی ہرزہ سرائی۔[6] 7 امریکی صدربش کی تقاریر تحریر کرنے والا اور امریکی خارجہ پالیسی کا معمار ڈیوڈ فروم اور امریکی سیکورٹی پالیسی کے جزو لانیفک رچرڈ پرل نے اپنی نئی کتاب" AN END TO EVIL" یعنی ’’شیطانیت کا خاتمہ‘‘میں اسلام کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار ان الفاظ میں کیاہے ’’دہشت گرد اسلام کی کوئی سرحد نہیں یہ انڈونیشیا سے انڈیانا تک پھیلاہواہے یہ ہماری اقدار اور تہذیب کادشمن ہے اسے نہ روکاگیاتو پھر ایک دن ہم سب ان(مسلمانوں)کے ہاتھوں میں کھلونا
[1] ہفت روزہ تکبیر 13اکتوبر2001ء. [2] روزنامہ نوائے وقت،لاہور،26مارچ2004ء. [3] ہفت روزہ غزوہ،21تا27نومبر2003ء. [4] نوائے وقت لاہور،7اگست،2003ء. [5] ہفت روزہ غزوہ لاہور،19جون2003ء. [6] مجلہ الدعوۃ دسمبر2002ء.