کتاب: دوستی اور دشمنی (کتاب و سنت کی روشنی میں) - صفحہ 55
پاکستان‘‘ معرض وجود میں اگیا،لیکن یہ تاریخ پاکستان کا بہت بڑا المیہ ہے کہ آج تک وطن عزیز کو ایسی قیادت میسر نہیں آسکی جو اس کی بنیاد ’’کلمہ توحید ‘‘کے تقاضے پورے کرتی تاہم اتنا ضرور رہا کہ کسی بھی سابقہ حکومت کوپاکستان کی نظریاتی اساس ’’دو قومی نظریہ‘‘ سے انحراف کی جرأت نہ ہوئی یہ ’’اعزاز‘‘ موجودہ حکومت کو حاصل ہے کہ پہلے وزیر اعظم صاحب نے ہندوستان سے دوستی کے نشے میں سرشا ر ہو کر فرمایا ’’دو قومی نظریہ،اب ایک قومی نظریہ بن چکا ہے۔‘‘ [1] اس کے بعد وزیر خارجہ نے فرمایا ’’ پاکستان اور بھارت کے درمیان کوئی نظریاتی اختلاف نہیں اگر کوئی اختلاف ہے تو وہ صرف مسئلہ کشمیر ہے۔‘‘ [2] پھر صدر پاکستان نے بھارتی جریدے ’’انڈیا ٹو دے‘‘ کے زیر اہتمام سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے یہ پیش کش فرمائی ’’بھارت سمیت پورے جنوبی ایشیاء میں مشترکہ تعلیمی نصاب تشکیل دینے کی تجویز پر غور کرنے کے لئے تیار ہیں۔‘‘ [3] اس بیان کے صرف چند دن بعد وزیر تعلیم کا یہ بیان اخبارات میں شائع ہوا’’تعلیمی نصاب سے بھارت کے خلاف نفرت پھیلانے والے مواد کو نکالنے کے لئے کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے۔[4] 1971ء میں سقوط ڈھاکہ کے موقع پر وزیر اعظم ہند اندرا گاندھی نے کہا تھا کہ ہم نے دو قومی نظریہ کو خلیج بنگال میں ڈبو دیا ہے۔اس کے بعد اس کی بہو سونیا گاندھی بھی اپنے تئیں دو قومی نظریئے کو پاش پاش کر چکی ہے۔اپنے ایک خطاب میں اس نے کہا تھا کہ برصغیر پاک و ہند کو مذہبی جنونیوں نے اپنے مقاصد کے لئے دو حصوں میں تقسیم کیا تھا مگر آج حقائق گواہ ہیں کہ ہم نے پاکستان میں اپنی ثقافت متعارف کروا کر دوقومی نظریئے کو پاش پاش کر دیا ہے۔[5] بدقسمتی سے آج وطن عزیز کے اپنے حکمران بھی عملاً یہی خدمت سرانجام دیتے نظر آرہے ہیں لیکن نادان حکمران یہ نہیں جانتے کہ دوقومی نظریہ کسی انسان کا تخلیق کیا ہوا نظریہ نہیں بلکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ،اس کے خالق ہیں۔کسی کافر کا کفریا کسی مرتد کا ارتداد یا کسی منافق کا نفاق اسے ختم نہیں کر سکتا۔دو قومی نظریہ ایک ایسی ٹھوس حقیقت ہے جو اپنا وجود خود منوانے کی اپنے اندر زبردست قوت رکھتی ہے۔چند مثالیں ملاحظہ ہوں: 1 مسلمان صرف اللہ وحدہ لا شریک پر ایمان رکھتے ہیں اور صرف اسی کی عبادت کرتے ہیں۔یہودی
[1] روزنامہ نوائے وقت ، لاہور یکم مارچ 2004ء. [2] ہفت روزہ تکبیر ، کراچی ، 6مئی 2004ء. [3] روزنامہ نوائے وقت ،لاہور ، 15مارچ 2004ء. [4] ہفت روزہ تکبیر ، 18مارچ 2004ء. [5] روزنامہ پاکستان ، 9مارچ 1996ء.