کتاب: دوستی اور دشمنی (کتاب و سنت کی روشنی میں) - صفحہ 54
نے فرمایا ’’سلمان(فارسی)تو ہمارے اہل بیت میں سے ہے۔‘‘ دراصل عقیدہ توحید،اقرار اور انکار کرنے والوں کو دوایسے مستقل گروہوں یا قوموں میں تقسیم کردیتا ہے جن کے عقائد،نظریات،طرز معاشرت،تہذیب و تمدن اور کلچر ایک دوسرے سے بالکل مختلف اور جدا ہوتے ہیں جن کا آپس میں مل جا کر رہنا ناممکن ہوتا ہے۔چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ عہدنبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں تین چار سال کی مختصرسی مدت میں عقائد،نظریات اور طرز معاشرت کایہ باہمی اختلاف… بیزاری،نفرت اور دشمنی کی اس حد تک پہنچ گیا کہ مسلمانوں کو اپنا وطن،اپنی جائیدادیں،اپنے اعزہ و اقارب چھوڑ کر حبشہ جانا پڑا۔اس پر بھی کفار کا ظلم و ستم نہ رکا تو مسلمانوں کو مستقل طور پر مدینہ منورہ کو دارالہجرت بناناپڑا۔کلمہ توحید کی بنیاد پر کفار کے ساتھ دشمنی،نفرت،بیزاری اور بالآخر قطع تعلقی اور علیحدگی کو ہی شرعی اصطلاح میں البراء کہا گیا ہے اور کلمہ توحید کی بنیاد پر اہل ایمان کے ساتھ دوستی،حمایت اور نصرت کوہی الولاء کہا گیا ہے۔مکہ مکرمہ سے اہل ایمان کا ہجرت کرنا البراء کا تقاضا تھا جبکہ مدینہ منورہ میں انصار کا مہاجرین سے محبت کرنا،ان کی مدد کرنا اور ان کو جگہ مہیاکرنا الولاء کا تقاضا تھا۔ تقسیم ہند کی بنیاد بھی کلمہ توحید ہی تھی۔اس وقت مسلم لیگ کی قیادت نے مسلمانوں کو یہ عام فہم نعرہ دیا ’’پاکستان کا مطلب کیا … لا الہ الا اللہ ‘‘ جو تمام مسلمانوں کے دلوں میں فوراً گھر کر گیا۔اس کی وجہ یہ تھی کہ مسلمانوں کے لئے یہ کوئی نیا عقیدہ یا نیا تصور نہیں تھا بلکہ مسلمان تو پہلے ہی اس عقیدہ کے مطابق اپنی زندگیاں بسر کررہے تھے۔ہندوستان کے مسلمانوں کا اپنے وطن،اپنی جائیدادیں اور اپنے اعزہ و اقارب کو چھوڑنا اور ہجرت کے بے پناہ مصائب و آلام برداشت کرنا،محض عقیدہ توحید کی خاطر تھا او رعقیدہ البراء کا تقاضا بھی یہی تھا۔پاکستان کی سرزمین پر مہاجرین کی نصرت کرنا،انہیں جگہ مہیا کرنا،ان کے دکھ درد میں شریک ہونا بھی اسی عقیدہ توحید کی خاطر تھا اور عقیدہ الولاء کا تقاضا بھی یہی تھا۔ اسی عقیدہ الولا ء والبراء کو تخلیق پاکستان کے وقت ’’ دو قومی نظریہ ‘‘ کا نام دیا گیا۔پس حقیقت یہ ہے کہ دو قومی نظریہ کا خالق کوئی آدمی نہیں بلکہ خود اللہ سبحانہ و تعالیٰ اس کے خالق ہیں،حکیم الامت علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ اور محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ دوقومی نظریہ(یا عقیدہ الولاء والبراء)کے بہترین وکیل تھے جنہوں نے سیاسی پلیٹ فارم پر پوری دنیا سے یہ تسلیم کروا لیا کہ مسلمان او رکافر دو الگ الگ قومیں ہیں،جن کا نظریہ حیات،مقصد حیات،طرز معاشرت اور تہذیب و تمدن ایک دوسرے سے بالکل جدا ہے،لہٰذا دنوں قوموں کا آپس میں اکٹھا اور مل جل کر رہنا ممکن نہیں۔طویل جدوجہد اور بے پناہ قربانیوں کے بعد الحمد للہ وطن عزیز ’’اسلامی جمہوریہ