کتاب: دوستی اور دشمنی (کتاب و سنت کی روشنی میں) - صفحہ 53
غور فرمائیے!ایک ہی وطن،ایک ہی نسل،ایک ہی زبان،ایک ہی رنگ،ایک ہی تہذیب کے لوگ،لیکن کلمہ توحید نے سب لوگوں کو دو الگ الگ گروہوں میں تقسیم کردیا۔ایک گروہ کلمہ توحید پر ایمان لا کر ’’مومن‘‘ کہلایا اور دوسرا گروہ کلمہ توحید کا انکار کرکے ’’کافر‘‘ کہلایا۔ حضرت نوح علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے یہ پیغام دے کر بھیجا:﴿اَنْ لاَّ تَعْبُدُوْا اِلاَّ اللّٰہَ﴾ترجمہ:’’اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو۔‘‘(سورۃ ہود،آیت نمبر26) حضرت نوح علیہ السلام کی اس دعوت کے بعد قوم دو گروہوں میں بٹ گئی،کلمہ توحید کا اقرار کرنے والے اور انکار کرنے والے۔حضرت نوح علیہ السلام کا صلبی بیٹا بھی انکارکرنے والوں میں شامل تھا۔طوفان آیا تو حضرت نوح علیہ السلام نے ڈرتے ڈرتے اللہ تعالیٰ سے سفارش کی ﴿اِنَّ ابْنِیْ مِنْ اَہْلِیْ﴾ ’’اے میرے رب!میرا بیٹا میرے اہل سے ہے۔‘‘(اسے بچا لے)ارشاد ہوا ﴿یٰنُوْحُ اِنَّہٗ لَیْسَ مِنْ اَہْلِکَ﴾ ’’اے نوح!یہ تمہارے اہل سے نہیں۔‘‘(سورۃ ہود،آیت نمبر46-45)اللہ تعالیٰ کے ارشاد کا مطلب یہ نہیں تھا کہ تمہارا بیٹا صلبی بیٹا نہیں رہابلکہ مطلب یہ تھا کہ کلمہ توحید کا انکار کرنے کے بعد اس کا تمہارے ساتھ نظریاتی تعلق نہیں رہااب وہ کفار کے گروہ کا،فرد ہے۔تمہارے گروہ کا نہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے باپ کو توحید کی دعوت دی،باپ نے نہ صرف گھر سے نکال دیا بلکہ قتل کی دھمکی بھی دی۔ارشاد ِ باری تعالیٰ ہے:﴿قَالَ اَرَاغِبٌ اَنْتَ عَنْ اٰلِہَتِیْ یاَ اِبْرَاہِیْمُ ج لَئِنْ لَّمْ تَنْتَہِ لَاَرْجُمَنَّکَ وَاہْجُرْنِیْ مَلِیًّا﴾ترجمہ:’’باپ نے کہا اے ابراہیم!کیا تو میرے معبودوں سے پھر گیا ہے اگر تو باز نہ آیا تو میں تجھے پتھر مار مار کر ہلاک کردوں گا۔میرے گھر سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے نکل جا۔‘‘(سورۃ مریم،آیت نمبر46) کلمہ توحید کو ماننے اور نہ ماننے سے باپ بیٹوں کے نہ صرف راستے جدا ہوگئے بلکہ دونوں ایک دوسرے کے دشمن بھی بن گئے۔ سید الانبیاء حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بھی یہی معاملہ پیش آیا۔ایک طرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتہائی ہمدرد اور خیر خواہ چچا ابو طالب ہم نسل،ہم وطن،ہم زبان اور ہمرنگ ہونے کے باوجود کلمہ توحید کا انکار کرکے کفار کے گروہ کافرد قرار پایا۔دوسری طرف ایک ایسا شخص جس کا نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسل سے نہ وطن سے نہ زبان سے نہ رنگ سے تعلق تھا،ہزاروں میل کا سفر طے کرکے حاضر ہوا،کلمہ توحید کا اقرار کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم