کتاب: دوستی اور دشمنی (کتاب و سنت کی روشنی میں) - صفحہ 52
تبصرہ کون کر سکتا ہے ﴿لَہُمْ قُلُوْبٌ لاَّ یَفْقَہُوْنَ بِہَا ز وَلَہُمْ اَعْیُنٌ لاَّ یُبْصِرُوْنَ بِہَا ز وَلَہُمْ اٰذَانٌ لاَّ یَسْمَعُوْنَ بِہَا ط اُولٰٓئِکَ کَالْاَنْعَامِ بَلْ ہُمْ اَضَلُّ ط اُولٰٓئِکَ ہُمُ الْغٰفِلُوْنَ﴾ ترجمہ ’’ان کے پاس دل ہیں مگر ان سے(حق کو)سمجھتے نہیں ان کے پاس آنکھیں ہیں لیکن یہ ان سے دیکھتے نہیں،ان کے پاس کان ہیں لیکن یہ ان سے سنتے نہیں،ایسے لوگ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی گئے گزرے۔یہ لوگ غفلت میں پڑے ہوئے ہیں۔‘‘(سورۃ الاعراف،آیت نمبر179) دنیا اور آخرت کی ان سزاؤں کے حوالہ سے آخر میں ہم یہ عرض کرنا بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ ہمارا رب بڑا ہی رحیم و کریم ہے،بڑا ہی بخشنہار اور پردہ پوش ہے اس نے توبہ کا دروازہ ہر وقت کھلا رکھا ہے جو بھی اس کے دروازے پر حاضر ہوتا ہے کبھی خالی ہاتھ نہیں لوٹتا،بڑے سے بڑے نافرمان اور سرکش کو بھی اس کی رحمت مایوس نہیں ہونے دیتی،وہ نہ صرف توبہ قبول کرتا ہے بلکہ اپنے گنہگار بندوں کی توبہ پر خوش ہوتا ہے۔اگر ہم ندامت اور پشیمانی کے ساتھ اس کے دروازے پر حاضر ہوجائیں اور اس کے رحم و کرم کی بھیک مانگیں تو وہ یقینا ہمارے گناہ معاف فرمادے گا وہ ہماری ذلت کو عزت سے بدل دے گا،خوف کی جگہ امن عطا فرما دے گا،خساروں کو نفع میں بدل دے گا،ہمارے بے راہرو کارواں کی راہنمائی فرمائے گا،ہماری بے بسی اور ناتوانی کو قوت اور توانائی سے نواز دے گا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ آخرت میں ہمارے گناہ معاف فرمادے گا،لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہم یہ سوداکرنے کے لئے تیار بھی ہیں؟ عقیدہ اَلْوَلاَء وَالْبَرَاء ہی دو قومی نظریہ ہے: عقیدہ ’’الولاء و البراء ‘‘کی بنیاد کلمہ توحید ہے۔تمام انبیاء کرام علیہم السلام اسی کلمہ توحید کی دعوت لے کر آئے جیسے ہی انبیاء کرام علیہم السلام نے لوگوں کو اس کلمہ کی دعوت دی ان میں دو گروہ بن گئے ایک کلمہ توحید کا اقرار کرنے والا اور دوسراکلمہ توحید کا انکار کرنے والا۔قوم ثمود کی طرف اللہ تعالیٰ نے حضرت صالح علیہ السلام کو بھیجا۔کلمہ توحید کی دعوت سنتے ہی لوگوں کے نہ صرف دو گروہ بن گئے بلکہ دونوں گروہوں میں تصادم اور کشمکش بھی شروع ہوگئی۔اللہ سبحانہ و تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:﴿وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَآ اِلٰی ثَمُوْدَ اَخَاہُمْ صٰلِحًا اَنِ اعْبُدُوا اللّٰہَ فَاِذَا ہُمْ فَرِیْقَانِ یَخْتَصِمُوْنَ﴾ ترجمہ:’’بے شک ہم نے ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح علیہ السلام کو(یہ پیغام دے کر)بھیجا کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو۔اسی وقت ان کے درمیان دو فریق بن گئے اور جھگڑا کرنے لگے۔‘‘(سورۃ النمل،آیت نمبر45)