کتاب: دوستی اور دشمنی (کتاب و سنت کی روشنی میں) - صفحہ 51
صندوق لوہے کے ہوں گے جو آگ لگتے ہی آگ ہوجائیں گے اور چاروں طرف سے بالکل بند ہوں گے پھر کوئی نہ ہوگا جو ان کی کسی طرح مدد کرے او رجہنم سے نکال سکے۔(تفسیر ابن کثیر)
عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں عبداللہ بن ابی اسلام لانے کے باوجود کفار سے دوستانہ تعلقات رکھتا تھا اور اس نے ایک بار نہیں کئی بار مسلمان ہوتے ہوئے کفار کے مفادات کا تحفظ کیا[1] جب وہ مرا تو اس کے بیٹے حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ جو مخلص اور سچے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے تھے،رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے باپ(عبداللہ بن ابی)کی نماز جنازہ پڑھانے کی درخواست کی۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداللہ کی دلجوئی کے لئے اور از راہ ترحم نماز جنازہ پڑھا دی تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرما دی۔﴿وَلاَ تُصَلِّ عَلٰٓی اَحَدٍ مِّنْہُمْ مَّاتَ اَبَدًا وَّ لاَ تَقُمْ عَلٰی قَبْرِہٖ ط اِنَّہُمْ کَفَرُوْا بِاللّٰہِ وَ رَسُوْلِہٖ وَ مَاتُوْا وَ ہُمْ فَاسِقُوْنَ﴾ ’’ان منافقوں میں سے اگر کوئی مرجائے تو اس کی نماز جنازہ نہ پڑھنا نہ اس کی قبر پر(دعا کے لئے)کھڑے ہونا کیونکہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کفر کیا ہے اور اس حال میں مرے ہیں کہ فاسق تھے۔‘‘(سورۃ التوبہ،آیت نمبر84)منافقین کے بارے میں یہ آیت تو اس واقعہ سے پہلے ہی نازل ہو چکی تھی ﴿اِسْتَغْفِرْلَہُمْ اَوْ لاَ تَسْتَغْفِرْلَہُمْ ط اِنْ تَسْتَغْفِرْ لَہُمْ سَبْعِیْنَ مَرَّۃً فَلَنْ یَّغْفِرَ اللّٰہُ لَہُمْ ط ذٰلِکَ بِاَنَّہُمْ کَفَرُوْا بِاللّٰہِ وَ رَسُوْلِہٖ ط وَاللّٰہُ لاَ یَہْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ﴾’’(اے نبی!)آپ ان کے لئے مغفرت کی دعا کریں یا نہ کریں(برابر ہے)اگر آپ ان کے لئے ستر مرتبہ بھی دعا کریں گے تو اللہ انہیں معاف نہیں فرمائے گا۔‘‘(سورۃ التوبہ،آیت نمبر80)
عبداللہ بن ابی کے واقعہ سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ منافقین قیامت کے روز رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت سے بھی محروم رہیں گے۔پس اللہ تعالیٰ کا غضب … رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت سے محرومی…،ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جہنم اور جہنم میں عذاب الیم۔یہ ساری سزائیں ہوں گی قیامت کے روز ان نام نہاد مسلمانوں کے لئے جو اہل ایمان کو چھوڑ کر کفار سے دوستی کرتے ہیں۔
دنیا اور آخرت میں اس بدترین انجام کو جان لینے کے باوجود جو حضرات یہ کہنے کی جسارت کرتے ہیں کہ کفار سے دوستی میں فائدے ہی فائدے ہیں [2] ان کے بارے میں قرآن مجید کے اس تبصرہ سے بہتر
[1] مثال کے طور پر ملاحظہ ہو غزوہ بنو قینقاع اور غزوہ بنو قریظہ کے مفصل حالات.
[2] اسرائیل کو تسلیم کرنے کے بارے میں وزارت خارجہ کی خفیہ رپورٹ ملاحظہ ہو: ’’اسرائیل کو تسلیم کرنے میں فائدے ہی فائدے ہیں نقصان کوئی نہیں ، بے شمار سیاسی ، اقتصادی اور فوجی فوائد کے علاوہ مغرب کی جارحانہ پالیسی کم اور سرمایہ کاری بڑھے گی، بھارت اسرائیل فوجی تعاون پر چیک رہے گا۔‘‘ (نوائے وقت ، 14جولائی 2003ء).