کتاب: دوستی اور دشمنی (کتاب و سنت کی روشنی میں) - صفحہ 46
رَبُّکَ فَقَاتِلاَ اِنَّا ہٰہُنَا قٰعِدُوْنَ﴾ ’’اے موسیٰ تو اور تیرا رب جا کر جہاد کر ہم تو یہیں بیٹھتے ہیں۔‘‘(سورۃ المائدہ،آیت نمبر 24)اللہ تعالیٰ نے انہیں اس نافرمانی کی سزا یہ دی کہ اپنی رہنمائی سے محروم فرما دیا۔ارشاد فرمایا ﴿قَالَ فَاِنَّہَا مُحَرَّمَۃٌ عَلَیْہِمْ اَرْبَعِیْنَ سَنَۃً ج یَتِیْہُوْنَ فِی الْاَرْضِط فَلاَ تَاْسَ عَلَی الْقَوْمِ الْفٰسِقِیْنَ﴾’’وہ ارض مقدس چالیس سال کے لئے تم پر حرام کردی گئی اب اسی صحرا میں سرگرداں پھرتے رہو گے۔(اے موسیٰ!)اب ایسے نافرمانوں کی حالت پر غم نہ کرنا۔‘‘(سورۃ المائدہ،آیت نمبر26)اللہ تعالیٰ کی راہنمائی سے محروم ہونے کے بعد چھ لاکھ افراد پر مشتمل یہ قوم صرف نوے(90)میل لمبے اور ستائیس(27)میل چوڑے علاقہ سے مسلسل چالیس سال تک نکلنے کا راستہ تلاش کرتی رہی لیکن تلاش نہ کر سکی وہی جگہ جہاں سے بیسیوں مرتبہ گزر کر وہ اپنے ملک مصر جاچکے تھے،واپس مصر جانے کے لئے راستہ تلاش کرتے تو مصر کا راستہ بھی نہ پا سکے۔ہوتا یہ کہ سارا دن سفر کرتے رہتے جب شام ہوتی تو معلوم ہوتا کہ پھر پھرا کر وہیں آگئے ہیں جہاں صبح کے وقت تھے۔ ان چالیس سالوں کے دوران حضرت ہارون علیہ السلام اور حضرت موسیٰ علیہ السلام فوت ہوگئے اور بنی اسرائیل کے وہ بزدل افراد،جو جہاد سے جی چرانے والے تھے،مر کھپ گئے،جذبہ جہاد سے سرشار نئی نوجوان نسل تیار ہوگئی تو اللہ تعالیٰ نے حضرت یوشع بن نون علیہ السلام کونبی بنا کربھیجا ان کی قیادت میں مجاہدین نے فوج کشی کی اور فاتح کی حیثیت سے ارض مقدس میں داخل ہوئے۔(معارف القرآن) کسی قوم کو اللہ تعالیٰ کا اپنی راہنمائی سے محروم فرما دینا،بڑی سخت سزا ہے اور اللہ تعالیٰ کی راہنمائی سے محروم ہونے کے بعد وہ قوم یقینااسی طرح بے منزل،بے ٹھکانہ اور بے مقصد سرگرداں پھرتی رہے گی جس طرح بنی اسرائیل پھرتی رہی۔﴿وَ مَنْ یُّضْلِلِ اللّٰہُ فَلاَ ہَادِیَ لَہٗ﴾ ’’اور جس کو اللہ تعالیٰ گمراہ کردے اسے کوئی راہ دکھانے والا نہیں۔‘‘(سورۃ الاعراف،آیت نمبر186) 2 اللہ تعالیٰ کی نصرت سے محرومی:اللہ تعالیٰ کے دشمنوں سے دوستی اور اتحاد کرنے کی دوسری سزا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسے لوگو ں کو اپنی نصرت سے محروم کردیتے ہیں۔ارشاد ِ باری تعالیٰ ہے:’’اگر تم نے علم آجانے کے بعد یہود ونصاریٰ کی خواہشات کی پیروی کی تو تجھے اللہ تعالیٰ کی پکڑسے بچانے والا کوئی دوست اور مدد گار نہیں ہوگا۔‘‘(سورۃ البقرہ،آیت نمبر120)اللہ تعالیٰ نے یہ بات رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرکے ارشاد فرمائی ہے کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود و نصاریٰ کی باتیں مانیں اور ان کے مطالبات تسلیم کئے تو اللہ تعالیٰ کی نصرت سے محروم ہوجاؤ گے اور کوئی دوسرا تمہاری مددنہیں کرسکے گا۔دوسری جگہ ارشاد ِ باری تعالیٰ ہے: