کتاب: دوستی اور دشمنی (کتاب و سنت کی روشنی میں) - صفحہ 45
5 وہ دنیا و آخرت میں فلاح پا گئے۔ اللہ تعالیٰ کے تمام وعدے برحق اور سچ ہیں جو لوگ آج بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے نقش قدم پر چلتے ہوئے الولاء والبراء کے تقاضوں کو پورا کریں گے وہ اللہ تعالیٰ کے وعدوں کو یقینا سچ پائیں گے۔﴿اِنَّ اللّٰہَ لاَ یُخْلِفُ الْمِیْعَادِ﴾ ’’بے شک اللہ تعالیٰ وعدوں کی خلاف ورزی نہیں فرماتا۔‘‘(سورۃ الرعد،آیت نمبر31) کفار سے دوستی کی دنیا میں سزا: کفار چونکہ اللہ تعالیٰ کے دشمن ہیں اس لئے ان سے دوستی کرنا دراصل اللہ کے دشمنوں سے دوستی کرنا ہے،کفار کے مطالبات تسلیم کرنا،دراصل اللہ کے دشمنوں کے مطالبات تسلیم کرنا ہے۔کفار کے مفادات کا تحفظ کرنا دراصل اللہ تعالیٰ کے دشمنوں کے مفادات کا تحفظ کرنا ہے،لہٰذا اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ بہت بڑا گناہ ہے جس کی دنیا میں بھی شدید ترین سزا ہے اور آخرت میں اس سے کہیں زیادہ شدید۔ہم قرآن مجید کی آیات کے حوالہ سے ان دونوں سزاؤں کایہاں الگ الگ تذکرہ کررہے ہیں اورامید رکھتے ہیں کہ اللہ اور یوم آخر پر ایمان رکھنے والے سعید فطرت لوگ اپنے آپ کو اس فتنہ عظیم سے محفوظ رکھنے کی ضرورکوشش کریں گے۔ کفار سے دوستی کی دنیا میں درج ذیل پانچ سزائیں ہیں: 1 اللہ تعالیٰ کی راہنمائی سے محرومی:ارشاد ِ باری تعالیٰ ہے:’’اے لوگو،جو ایمان لائے ہو!یہود و نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ وہ ایک دوسرے کے دوست ہیں تم میں سے جو بھی انہیں اپنا دوست بنائے گا اس کا شمار بھی انہیں میں سے ہوگا،بے شک اللہ تعالیٰ ایسے ظالموں کی راہنمائی نہیں فرماتا۔‘‘(سورۃ المائدہ،آیت نمبر51)اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر یہ بات ارشاد فرمائی ہے کہ جو لوگ اسلام دشمن کافروں سے دوستی کریں گے اللہ تعالیٰ ان ظالموں کی راہنمائی نہیں فرمائیں گے۔اللہ تعالیٰ کی رہنمائی سے محرومی کے بعد کون ہے جو کسی قوم کو خوشحالی یا کامیابی کا راستہ دکھا سکے؟ عبرت کے لئے بنی اسرائیل کا واقعہ یاد کرلیجئے جب حضرت موسیٰ علیہ السلام،بنی اسرائیل کو مصر سے لے کر نکلے تو بنی اسرائیل جزیرہ نمائے سینا میں خیمہ زن ہوئے،اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ اب تم لوگ ارض مقد س یعنی فلسطین پر فوج کشی کرو تم لوگ فاتح کی حیثیت سے شہر میں داخل ہوگے،بنی اسرائیل نے جہاد کرنے سے انکار کردیا،کہنے لگے ﴿فَاذْہَبْ اَنْتَ وَ