کتاب: دوستی اور دشمنی (کتاب و سنت کی روشنی میں) - صفحہ 43
جانے دو۔‘‘ حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا ’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم!اگر آپ کاحکم ہے تو پھر یہ جا سکتا ہے۔‘‘ حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ نے ساتھ ہی یہ بات بھی عرض کی ’’ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم!اگر آپ میرے باپ کو(توہین رسالت کے جرم میں)قتل کرنے کا ارادہ رکھتے ہوں تو مجھے حکم دیں،اللہ کی قسم!میں اس کا سر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر کردوں گا۔‘‘ حضرت حنظلہ رضی اللہ عنہ کا باپ ابو عامر تو رات اور انجیل کا عالم تھا لیکن جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے تو ابو عامر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دشمنی میں اس قدردیوانہ ہوگیا کہ مدینہ چھوڑ کر مشرکین مکہ کے ہاں جا کر رہائش پذیر ہوگیا۔لوگوں کو ہر وقت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف بھڑکاتا اور مشتعل کرتا رہتا۔حضرت حنظلہ رضی اللہ عنہ نے کچھ دیر تو برداشت کیا لیکن ایک روز توہین رسالت کے اس جرم پر غیرت ایمانی کو یارائے ضبط نہ رہا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے،عرض کیا ’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم!اجازت ہو تو اپنے باپ کا سر اتار لاؤں ؟‘‘ رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’نہیں!ہم اس سے برا سلوک نہیں کریں گے۔‘‘ غزوہ تبوک کے لئے روانگی کا حکم ہوا تو منافقین نے مختلف حیلوں بہانوں سے رخصت لینی شروع کردی اس موقع پر درج ذیل تین مخلص صحابہ کرام رضی اللہ عنہم محض سستی کی بنا ء پر پیچھے رہ جانے والوں میں شامل تھے۔1. حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ۔2.حضرت ہلال بن امیہ رضی اللہ عنہ۔3. حضرت مرارہ بن ربیع رضی اللہ عنہ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سزا کے طور پر تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو حکم دیا کہ ان تینوں حضرات سے قطع تعلق کرلیا جائے۔حضرت ہلال رضی اللہ عنہ اور حضرت مرارہ رضی اللہ عنہ تو گھر بیٹھ گئے لیکن حضرت کعب رضی اللہ عنہ بازار اور مسجد آتے جاتے اس لئے انہیں اس مقاطعہ کی وجہ سے شدید پریشانی کا سامناکرنا پڑا ایک روز انہیں قیصر روم کے گورنر شاہ غسان کا خط ملا کہ ہمیں پتہ چلا ہے تمہارے نبی نے تم پر بڑا ظلم کیا ہے حالانکہ تم ذلیل آدمی نہیں ہونہ ہی ضائع کرنے کے لائق ہو ہمارے پاس آجاؤ،ہم تمہیں عزت بخشیں گے۔یہ خط حضرت کعب رضی اللہ عنہ کے ایمان کا بہت بڑا امتحان تھا۔حضرت کعب رضی اللہ عنہ نے پریشانی کے اس عالم میں بھی ’’الولاء والبراء‘‘ کی ایسی عظیم مثال قائم کی جو رہتی دنیا تک اہل ایمان کے ایمان کو جلا بخشتی رہے گا۔جیسے ہی قیصر روم کا خط پڑھا،ایک لمحہ ضائع کئے بغیر اسے آگ میں جھونک دیااور قیصر روم کو عملاً یہ پیغام دے دیا کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے مقابلہ میں کفار کی دی ہوئی عزت اور وقار آگ میں جھونک دینے کے لائق ہے۔ غزوہ بدر میں حضرت عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کا باپ مشرکین مکہ کے ساتھ تھا۔حضرت ابو عبیدہ بن