کتاب: دوستی اور دشمنی (کتاب و سنت کی روشنی میں) - صفحہ 41
بہترین نمونہ ہے جب انہو ں نے اپنی قوم سے صاف صاف کہہ دیا ہم تم سے اور تمہارے ان معبودوں سے،جن کی تم بندگی کرتے ہو اللہ کو چھوڑ کر،قطعی بیزار ہیں ہم نے(تمہارے دین سے)انکار کیا،ہمارے اور تمہارے درمیان ہمیشہ کے لئے عداوت اور بیر پڑ گیا جب تک تم ایک اللہ پر ایمان نہ لے آؤ۔‘‘(سورۃ الممتحنہ،آیت نمبر4) سورۃ الممتحنہ کی اس آیت سے درج ذیل تین باتیں معلوم ہوتی ہیں: 1 کفار کے کفر سے واضح طور پر اظہار بیزاری اور اظہار نفرت کرنا مسلمانوں پر واجب ہے۔ 2 کفار کے ساتھ مسلمانوں کو اپنی عداوت دشمنی اور بیر کا کھلا کھلا اظہار اس وقت تک کرنا چاہئے جب تک وہ ایک اللہ پر ایمان نہیں لاتے۔ 3 آیت کریمہ سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ ’’الوَلاَء والبَرَاء‘‘ شریعت ِاسلامیہ کا ایک مستقل قانون اور ضابطہ ہے جو پہلی امتوں کے لئے بھی اسی طرح تھا جس طرح امت ِ محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ہے۔ اَلْبَرَاء کے بارے میں انبیاء کرام کی چند مثالیں ملاحظہ ہوں۔ حضرت نوح علیہ السلام نے طوفان کے وقت اپنے کافر بیٹے کے لئے پدری شفقت اور محبت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے حضور سفارش کی لیکن جب انہیں معلوم ہوگیا کہ یہ بات اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں تو فوراً اس سے بیزار ہوگئے اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں یوں عرض پرداز ہوئے ﴿رَبِّ اِنِّیْ اَعُوْذُ بِکَ اَنْ اَسْئَلَکَ مَا لَیْس لِیْ بِہٖ عِلْمٌ ط وَ اِلاَّ تَغْفِرْلِیْ وَ تَرْحَمْنِیْ اَکُنْ مِّنَ الْخٰسِرِیْنَ﴾’’اے میرے رب!میں تیری پناہ چاہتا ہوں اس بات سے کہ تجھ سے وہ سوال کروں جس کا مجھے علم نہیں اگر تو نے مجھے معاف نہ کیا اور مجھ پر رحم نہ فرمایا تو میں تباہ ہوجاؤں گا۔‘‘(سورۃ ہود،آیت نمبر47) حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جب اپنے باپ کے بارے میں علم ہوگیا کہ وہ اللہ تعالیٰ کا دشمن ہے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس سے فوراً براء ت کردی۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿فَلَمَّا تَبَیَّنَ لَہٗ ٓ اَنَّہٗ عَدُوٌ لِّلّٰہِ تَبَرَّاَ مِنْہُ ط﴾ ’’جب ابراہیم پر یہ بات واضح ہوگئی کہ اس کا باپ اللہ کا دشمن ہے تو ابراہیم نے اس سے بیزاری کا اظہار کیا۔‘‘(سورۃ التوبہ،آیت نمبر114) حضرت لوط علیہ السلام کی بیوی کافر تھی،فرشتے اللہ کا عذاب لے کر آئے تو حضرت لوط علیہ السلام کو بتایا ﴿اِنَّا