کتاب: دوستی اور دشمنی (کتاب و سنت کی روشنی میں) - صفحہ 39
کی خوشخبری سنادو۔‘‘(سورۃ النساء،آیت نمبر139-138) 7 سورہ ہود میں تو کفار کے عقائد،نظریات،کلچر اور تہذیب و تمدن کو محض پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھنے پر ہی جہنم کے عذاب کی وعید سنائی گئی ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’ظالموں کی طرف بالکل نہ جھکو ورنہ جہنم کی لپیٹ میں آجاؤ گے۔‘‘(سورۃ ہود،آیت نمبر113) یہاں قدرتی طور پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر کفار کے ساتھ دوستی اور محبت سے اللہ تعالیٰ نے اتنی سختی اور شدت سے کیوں منع فرمایا ہے؟ دنیا میں اسلامی اور غیر اسلامی ممالک کا آپس میں لین دین،تجارتی تعلقات،سفارتی تعلقات اور آمدو رفت ایسی مجبوریاں ہیں،جن سے کوئی مفر نہیں۔پھر مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ نے اتنی سخت آزمائش میں کیوں ڈالا ہے؟ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے مختلف مقامات پر خود ہی اس کا جواب ارشاد فرمایا ہے۔چند مقامات پیش خدمت ہیں: 1 ’’ کفار چاہتے ہیں جس طرح وہ خود کافر ہیں اسی طرح تم بھی کافر ہوجاؤ تاکہ تم اور وہ سب برابر ہوجائیں۔‘‘(سورۃ النساء،آیت نمبر89) 2 ’’اے لوگو،جو ایمان لائے ہو!اپنے مومن ساتھیوں کے علاوہ کسی دوسرے کو اپنا راز دار نہ بناؤ،کیونکہ وہ تمہیں ہلاک کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے،جس بات سے تمہیں تکلیف پہنچے اس سے وہ خوش ہوتے ہیں ان کا بغض ان کی زبانوں سے نکلا پڑتا ہے اور جو کچھ ان کے سینوں میں چھپا ہے وہ اس سے کہیں بڑاہے۔‘‘(سورۃآلعمران،آیت نمبر118) مذکورہ آیت میں اللہ تعالیٰ نے کفار سے دشمنی رکھنے کے چار بنیادی اسباب بتادیئے ہیں۔ اولاً کافر،مسلمانوں کو ہر قیمت پر ہلاک کرنا چاہتے ہیں۔ ثانیاً مسلمانوں کی تکلیف پر کفار کو خوشی ہوتی ہے۔ ثالثاً کافر مسلمانوں کے خلاف شدید بغض رکھتے ہیں۔ رابعاً ان کے دلوں میں چھپی ہوئی دشمنی اس دشمنی سے کہیں زیادہ ہے جس کا وہ اظہار کرتے ہیں۔ غور فرمائیے!اگرکسی آدمی کو واقعتاس بات کا یقین ہوجائے کہ جس شخص سے وہ دوستی کرنے جارہا ہے وہ اس کا اس قدر دشمن ہے کہ اسے ہلاک کرنے کے درپے ہے۔اس کی تکلیف پر اسے خوشی ہوتی ہے۔کیا کوئی بھی غیرت منداورہوش مند آدمی ایسے دشمن کے ساتھ دوستی کرنے کے لئے تیا رہوگا؟ ہر گز نہیں!