کتاب: دوستی اور دشمنی (کتاب و سنت کی روشنی میں) - صفحہ 37
(یعنی قتال)واجب ہے،کفار کی قوت توڑنا،مسلمانوں کو ان کے ظلم سے بچانا اور ان سے ظلم کا بدلہ لینا جہاد سے ہی ممکن ہے لیکن یہ بات ذہن نشین رہنی چاہئے کہ اسلام میں جہاد اپنے اغراض و مقاصدکے اعتبار سے ایک عبادت ہے بالکل اسی طرح جس طرح نماز،روزہ اور صدقہ و خیرات عبادت ہے۔جس طرح نماز روزہ ادا کرنے کے لئے شریعت نے اصول و ضوابط بنائے ہیں اسی طرح جہاد کے لئے بھی شریعت نے اصول وضوابط مقرر فرمائے ہیں۔جہاد اسی وقت عبادت بنے گا جب یہ شریعت کے مقرر کردہ اصول و ضوابط کے مطابق کیا جائے گا۔ان اصولوں میں سے اہم ترین اصول یہ ہے کہ وہ اسلام دشمن کفار جو مسلمانوں کے خلاف برسر جنگ ہوں ان کا بدلہ ان بے ضررکفار سے نہ لیا جائے جو برسر جنگ نہ ہوں۔ایک غزوہ میں عورت قتل کی گئی۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو علم ہوا تو دریافت فرمایا ’’عورت تو قتال نہیں کررہی تھی،پھر یہ کیوں قتل کی گئی؟‘‘چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آئندہ کے لئے حکم دے دیا ’’کسی عورت اور مزدور کو قتل نہ کرو۔‘‘(ابوداؤد)لشکر اسامہ کو روانہ فرماتے ہوئے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کو یہ ہدایت فرمائی تھی ’’کسی بچے،بوڑھے اور درویش کو قتل نہ کرنا۔‘‘ جس کا مطلب یہ ہے کہ قتال صرف ان اسلام دشمن کفار کے خلاف ہونا چاہئے جو عملاً برسرجنگ ہوں۔ اس سلسلہ میں دوسری گزارش یہ ہے کہ موجودہ صورت حال میں جبکہ اسلام دشمن کفار پوری منصوبہ بندی کے ساتھ ساری دنیا میں اسلام اور مسلمانوں کو مغلوب کرنے کے لئے ہر جائز اور ناجائز حربہ استعمال کررہے ہیں۔یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ پوری مسلم امہ اپنے حکمرانوں کی بے حسی اور مجرمانہ خاموشی سے شدید نفرت کرتی ہے اور یہ چاہتی ہے کہ مسلم امہ کی قیادت ایسے لوگوں کے ہاتھ میں آئے جو کفار کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرسکیں۔مسلم ممالک کی اس صورت حال سے کفارنہ صرف اچھی طرح واقف ہیں بلکہ یہ چاہتے ہیں کہ مسلم ممالک کے حکمرانوں اور عوام کے درمیان تصادم اور ٹکراؤ پیدا ہو تاکہ یہ ممالک انتشار اور بدامنی کا شکار ہوکر عدم استحکام سے دوچار ہوں،جس کا بالآخر فائدہ کفار ہی کو ہوگا۔ ہمارے خیال میں مسلمان حکمرانوں کو اپنی پالیسیاں تبدیل کرنے کے لئے عوام کو دباؤ کے وہ تمام ذرائع استعمال کرنے چاہئیں جن کی اجازت اس ملک کا قانون اور آئین دیتا ہو،لیکن ایسی کارروائیاں کرنے سے ہر حال میں گریز کرنا چاہئے جس سے حکمرانوں اور عوام کے درمیان تصادم اور ٹکراؤ پیدا ہونے کا خدشہ ہو۔ایسی کارروائیاں جہاد نہیں دہشت گردی کہلائیں گی۔ہمارا دشمن(یہود و نصاریٰ اور ہنود)بہت