کتاب: دوستی اور دشمنی (کتاب و سنت کی روشنی میں) - صفحہ 36
ہوا۔اسلامی تعلیمات کے مطابق دوسری قسم کے لوگ تو بدرجہ اولیٰ نیکی اور احسان کے مستحق ہیں لیکن اسلام نے پہلی قسم کے بے ضرر کفار کے ساتھ بھی نیکی،رحمدلی اور احسان کرنے کی ترغیب دلائی ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿لاَ یَنْہٰکُمُ اللّٰہُ عَنِ الَّذِیْنَ لَمْ یُقَاتِلُوْکُمْ فِی الدِّیْنِ وَ لَمْ یُخْرِجُوْکُمْ مِّنْ دِیَارِکُمْ اَنْ تَبَرُّوْہُمْ وَ تُقْسِطُوْا اِلَیْہِمْ ط اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ﴾ ترجمہ:’’اللہ تمہیں اس بات سے نہیں روکتا کہ تم ان کافروں سے نیکی اور عدل کا برتاؤ کرو جنہوں نے دین کے معاملہ میں تم سے جنگ نہیں کی اور تمہیں تمہارے گھروں سے نہیں نکالا اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔‘‘(سورۃ الممتحنہ،آیت نمبر8) بے ضرراور غیر دشمن کفار کے ساتھ عدل و انصاف اور نیک سلوک کرنے پر یقینا اجر و ثواب بھی ہو گا۔(تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو کتاب ہذا کا باب ’’بے ضرر کفار کے ساتھ حسن سلوک کا حکم‘‘)یہاں یہ بات یاد رکھنے کے لائق ہے کہ شریعت نے بے ضرر اور غیر دشمن کفار کے ساتھ نیکی اور عدل سے کام لینے کا حکم ضرور دیا ہے لیکن ان کے ساتھ قلبی محبت اور دوستی کی اجازت نہیں دی۔اس لئے کہ قلبی محبت اور دوستی(الولاء)صرف اللہ،اس کے رسول اور اہل ایمان کا حق ہے۔جہاں تک اسلام دشمن کفار کا تعلق ہے جو اسلام کو مغلوب کرنا چاہتے ہیں لوگوں کو اسلام کی طرف آنے سے روکتے ہیں،مسلمانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑتے ہیں اور انہیں صفحہ ہستی سے مٹانے کے درپے ہیں،ایسے کفار کے بارے میں شریعت نے الگ تعلیمات دی ہیں۔کتاب ہذا میں ’’البراء‘‘ کے تحت جتنے احکام اورمسائل بیان کئے گئے ہیں وہ اسلام دشمن کفار کے بارے میں ہی دیئے گئے ہیں۔ یہاں یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہئے کہ کفار کے ساتھ دشمنی،اظہار نفرت و بیزاری اور ترک تعلق اور پھر حسب موقع ان کے خلاف قتال او رجہاد کا حکم ان کے کفر کی وجہ سے نہیں دیا گیا بلکہ ان کے اس جرم کی وجہ سے دیا گیا ہے کہ وہ اسلام کا راستہ روکتے ہیں،اسلام کو مغلوب کرنا چاہتے ہیں،مسلمانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑتے ہیں،ان کا خون بہاتے ہیں،انہیں جلا وطن کرتے ہیں اور ان کے گھر بار برباد کرتے ہیں۔ 2 جہاد اور دہشت گردی میں فرق: اسلام دشمن کفار،جو اسلام کا راستہ روک رہے ہوں،اسلام کو مغلوب کرنے اور مٹانے کی کوشش کررہے ہوں،اور اس مقصد کے لئے مسلمانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ رہے ہوں،ان کے خلاف جہاد