کتاب: دوستی اور دشمنی (کتاب و سنت کی روشنی میں) - صفحہ 29
افسوس!آج مسلمانوں نے بھی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں غلو کا وہی راستہ اختیار کر لیا ہے جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا تھا۔عام شعراء کے نعتیہ کلام کا تو کہنا ہی کیا،اچھے بھلے اہل علم شعراء بھی اس معاملے میں کتاب و سنت کی تعلیمات کی پابندی نہیں کر سکے۔چند مثالیں ملاحظہ ہوں: یہ شعر اکثر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح میں پڑھاجاتا ہے: ادب گا ہیست زیر آسماں از عرش نازک تر نفس گم کردہ می آید جنید و بایزید ایں جا ترجمہ’’آسمان کے نیچے ادب کی ایک ایسی جگہ ہے جو عرش سے بھی نازک ہے جہاں جنید بغدادی اور بایزید بسطامی جیسے بزرگ بھی سانس روک کر حاضر ہوتے ہیں۔‘‘ اس شعر میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر شریف کو عرش الٰہی سے افضل قرار دیا گیا ہے۔یہ بات تو مسلمہ ہے کہ مکان کی فضیلت مکین کی وجہ سے ہوتی ہے۔اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا روضہ مبارک عرش الٰہی سے افضل ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خود اللہ تعالیٰ سے افضل ہیں،معاذ اللہ!جو کہ اللہ تعالیٰ کی جناب میں شدید گستاخی ہے۔ایسا ہی ایک شعر آج کل زبان زد عام ہے کعبے کی عظمتوں کا منکر نہیں ہوں میں کعبے کا بھی کعبہ پیارے نبی کا روضہ اس شعر میں بھی ویسا ہی غلو اور شرک ہے جیسا کہ پہلے شعر میں ہے۔ مولانا رومی کا ایک شعرملاحظہ ہو: اول و آخر توئی،ظاہر و باطن توئی مفخر عالم توئی شاہ سلام ٌ علیک قرآن مجید میں واضح طور پر اول و آخر اور ظاہر وباطن کی صفت اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے لئے بیان ہوئی ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿ہُوَ الْاَوَّلُ وَالْاٰخِرُ وَالظَّاہِرُ وَالْبَاطِنُ﴾ترجمہ:’’وہ اول بھی ہے آخر بھی،ظاہر بھی ہے باطن بھی۔‘‘(سورۃ الحدید،آیت نمبر3) اللہ تعالیٰ کی اس صفت میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو شریک کرنا سراسر غلو اور شرک ہے۔یہی لغزش علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ سے بھی ہوئی ہے۔ان کا شعر ہے ع