کتاب: دوستی اور دشمنی (کتاب و سنت کی روشنی میں) - صفحہ 28
لِمَا تُحِبُّ وَتَرْضٰی اے اللہ!ہمیں اسی چیز کی توفیق عطا فرماجو تو پسند فرماتاہے اور جس سے تو خوش ہوتاہے۔‘‘آمین! ایک باطل عقیدے کی تردید: اس میں شک نہیں کہ تمام مسلمانوں کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنی جان اپنے ماں باپ،اپنے بیوی بچوں،اپنے اعزہ و اقارب اور دنیا کی ہر چیز سے بڑھ کر محبت کرنے کا حکم ہے،لیکن کتاب و سنت کی تعلیم کے مطابق اہل ایمان کی سب سے پہلی اور سب سے زیادہ محبت اللہ تعالیٰ کے لئے اور پھر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے اور اس کے بعد دوسرے اہل ایمان کے لئے ہونی چاہئے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿وَمَنْ یَّتَوَلَّ اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہٗ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فَاِنَّ حِزْبَ اللّٰہِ ہُمُ الْغٰلِبُوْنَ﴾ترجمہ:’’جو شخص اللہ کو،اس کے رسول کو اور اہل ایمان کو دوست بنا لے اسے معلوم ہونا چاہئے کہ اللہ کی جماعت ہی غالب ہونے والی ہے۔‘‘(سورہ مائدہ،آیت نمبر56) اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ولاء(محبت)کی ترتیب واضح فرما دی ہے۔پہلے نمبر پر محبت اللہ تعالیٰ کے لئے،دوسرے نمبر پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے اور تیسرے نمبر پر اہل ایمان کے لئے۔لیکن بعض لوگ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں اس قدر غلو سے کام لیتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام اور مرتبہ اللہ تعالیٰ کے برابر کردیتے ہیں جو کہ جائز نہیں۔اس سے خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے۔ارشاد نبوی ہے:((لاَ تَطْرُوْنِیْ کَمَا اَطْرَتِ النَّصَارٰی ابْنُ مَرْیَمَ فَاِنَّمَا اَنَا عَبْدُہٗ فَقُوْلُوْا عَبْدُاللّٰہِ وَ رَسُوْلُہٗ))ترجمہ:’’میری تعریف میں مبالغہ نہ کرنا جس طرح نصاریٰ نے عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کی تعریف میں مبالغہ کیا(اور اسے اللہ تعالیٰ کا شریک بنا ڈالا)،بے شک میں ایک بندہ ہوں،لہٰذا مجھے اللہ تعالیٰ کا بندہ اور اس کا رسول کہو۔‘‘(بخاری) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اگر کسی نے آپ کی تعریف میں غلو سے کام لیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فوراً ٹوک دیا۔ایک صحابی نے دوران گفتگو یہ الفاظ کہے ’’جو اللہ چاہے اورجو آپ چاہیں۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فوراً روک دیا اور فرمایا ’’کیا تو نے مجھے اللہ تعالیٰ کا شریک سمجھا ہے۔‘‘(مسند احمد)ایک صحابی نے بارش کے لئے دعا کروانی چاہی اور یوں کہا ’’ہم اللہ کو آپ کے ہاں اور آپ کو اللہ کے ہاں سفارشی بناتے ہیں۔‘‘ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے کا رنگ بدلنے لگااور فرمایا ’’افسوس!تجھے معلوم نہیں اللہ تعالیٰ کی شان کتنی بلند ہے۔اسے کسی کے حضور سفارشی نہیں بنایا جا سکتا۔‘‘(ابوداؤد)