کتاب: دوستی اور دشمنی (کتاب و سنت کی روشنی میں) - صفحہ 25
جانفشانی سے صبح وشام اداکررہے ہیں اورجب سے ملک کے سیکولراور ماڈریٹ اسلام کے علمبردار حکمرانوں نے دوقومی نظریہ کی جگہ ایک ہی نظریہ ایک ہی کلچر،ایک ہی تہذیب کانیافلسفہ شروع کیاہے تب سے مسلم اور غیر مسلم کی تمیز بھی ختم ہوگئی ہے۔ہندی فلمیں،ہندی فلمی ستارے،ہندی گلوکار،ہندی کہانی نویس اور ہندی موسیقار بھی اب ویسے ہی آئیڈیل ہیں جیسے پاکستانی! کتنے ہی ذہین اور فطین طلباء ایسے ہوتے ہیں جوبری دوستی اور بری صحبت کی وجہ سے اپنامستقبل برباد کربیٹھتے ہیں اور عمر بھر اس کی تلافی نہیں کرپاتے اور کتنی ہی دیندار گھرانوں کی سعید فطرت طالبات ایسی ہوتی ہیں جو بری دوستی اور بری سوسائٹی کی وجہ سے اپنی زندگیاں برباد کر بیٹھتی ہیں اور پھر ساری عمرندامت کے آنسو بہاتے گزار دیتی ہیں۔اس سلسلہ میں والدین پریہ بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنی اولاد کو بچپن سے ہی اچھے اور نیک بچوں سے دوستی کی عادت ڈالیں۔ افسوس اور تعجب کی بات تویہ ہے کہ علم وادب کے میدان میں بھی محبت اور دوستی کے اس اسلامی عقیدے کا خیال رکھنے والے بہت کم لوگ ہیں کسی آدمی کے قول اور فعل کو پسند کرنااس سے محبت اور عقیدت ہی کی علامت ہے۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث مبارکہ،صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اقوال اورمحدثین،فقہاء اور امت کے دیگر علماء وفضلاء کے پندونصائح کو چھوڑ کرچرچل،لنکن،آئن سٹائن،ٹائن بی،فرینکلن اور کارینگی وغیرہ کے اقوال کو’’اقوال زریں‘‘کہہ کر نصیحت کے طور پر پیش کرنا سراسر اسلامی عقیدہ ’’الولاء و البراء ‘‘کے خلاف ہے۔ سیاست میں بھی لوگوں کی اکثریت بے دین،بے نماز،کبائرکے مرتکب اور شرک و بدعت میں مبتلا سیاستدانوں کو اپنا آئیڈیل بنانے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کرتی۔الیکشن کے موقع پر ووٹ دینے کے لئے نیکی،تقویٰ اور دینداری کو بنیاد بنانے کے بجائے کنبہ،قبیلہ،برادری اور دنیاوی مفادات کو بنیاد بنایا جاتا ہے۔یہ طرز عمل بھی عقیدہ ’’اَلْوَلاَء وَالْبَرَاء ‘‘کے سراسر خلاف ہے۔