کتاب: دوستی اور دشمنی (کتاب و سنت کی روشنی میں) - صفحہ 190
عَفُوًّا غَفُوْرًا﴾(4:97-99) ’’جو لوگ(ایمان لانے کے بعد کافروں کے درمیان قیام پذیر ہوکر)اپنے نفس پر ظلم کرنے والے ہیں ان کی روحیں جب فرشتے قبض کرتے ہیں تو ان سے پوچھتے ہیں تم کس حال میں تھے؟ وہ جواب دیتے ہیں کہ ہم زمین میں کمزور اور مغلوب تھے۔فرشتے جواب دیتے ہیں کیا اللہ کی زمین وسیع نہ تھی کہ تم اس میں ہجرت کرتے ؟ یہ وہ لوگ ہیں جن کا ٹھکانہ جہنم ہے جو کہ بہت ہی برا ٹھکانہ ہے ہاں جو مرد اور عورتیں اور بچے واقعی بے بس ہیں وہاں سے نکلنے کا کوئی راستہ اور ذریعہ نہیں پاتے،بہت ممکن ہے اللہ انہیں معاف فرمادے اللہ درگزر کرنے والا اور معاف فرمانے والا ہے۔‘‘(سورۃ النساء،آیت نمبر 97-99) عَنْ جَرِیْرٍ رَضی اللّٰه عنہ قَالَ:أَتَیْتُ النَّبِیَّ صلی اللّٰه علیہ وسلم وَ ہُوَ یُبَایِعُ فَقُلْتُ:یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم اُبْسُطْ یَدَکَ حَتّٰی اُبَایِعَکَ وَاشْتَرِطْ عَلَیَّ فَأَنْتَ اَعْلَمُ قَالَ((اُبَایِعُکَ عَلٰی اَنْ تَعْبُدَ اللّٰہَ وَ تُقِیْمَ الصَّلاَۃَ وَ تُؤَدِّیَ الزَّکَاۃَ وَ تُنَاصِحَ الْمُسْلِمِیْنَ وَ تُفَارِقَ الْمُشْرِکِیْنَ))رَوَاہُ النِّسَائِیُّ [1] (صحیح) حضرت جریر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں،میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں سے بیعت لے رہے تھے۔میں نے عرض کیا ’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم!اپنا دست مبارک بڑھائیں تاکہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کروں اور جو شرط لگانا چاہیں وہ لگائیں کیونکہ آپ ہی دین کا علم رکھنے والے ہیں۔‘‘آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’میں تم سے ان باتوں پر بیعت لیتا ہوں۔1.اللہ کی عبادت کرنا۔2. نماز قائم کرنا۔3.زکاۃ ادا کرنا۔4. مسلمانوں کے ساتھ خیر خواہی کرنا اور… مشرکوں سے علیحدگی اختیار کرنا۔‘‘ اسے نسائی نے روایت کیا ہے۔ عَنْ بَہْزِ بْنِ حَکِیْمٍ عَنْ اَبِیْہِ عَنْ جَدِّہٖ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم((لَا یَقْبَلُ اللّٰہُ مِنْ مُشْرِکٍ اَشْرَکَ بَعْدَ مَا اَسْلَمَ عَمَلاً حَتّٰی یُفَارِقَ الْمُشْرِکِیْنَ اِلَی الْمُسْلِمِیْنَ))۔رواہ ابن ماجۃ[2] (حسن) حضرب بہز بن حکیم رضی اللہ عنہ اپنے باپ سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اللہ تعالیٰ کسی ایسے مشرک کا کوئی بھی عمل قبول نہیں کرتے جو اس نے اسلام لانے کے بعد کیا ہو حتی کہ وہ مشرکوں کو چھوڑ کر مسلمانوں میں داخل ہوجائے۔‘‘ اسے ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔
[1] کتاب البیعۃ ، باب البیعۃ علی فراق المشرک (3؍3893). [2] کتاب الحدود ، باب المرتد عن دینہ (2؍2055).