کتاب: دوستی اور دشمنی (کتاب و سنت کی روشنی میں) - صفحہ 176
﴿وَمَا کَانَ اسْتِغْفَارُ اِبْرَاہِیْمَ لِاَبِیْہِ اِلاَّ عَنْ مَّوْعِدَۃٍ وَّعَدَہَآ اِیَّاہُ ج فَلَمَّا تَبَیَّنَ لَہٗ اَنَّہٗ عَدُوٌّ لِّلّٰہِ تَبَرَّاَ مِنْہُ ط اِنَّ اِبْرَاہِیْمَ لَاَوَّاہٌ حَلِیْمٌ﴾(9:114) ’’اور ابراہیم( علیہ السلام)نے اپنے باپ کے لئے جو دعائے مغفرت کی تھی وہ تو اس وعدے کی بنا پر تھی جو اس نے اپنے باپ سے کیا تھا مگر جب اس پر یہ بات واضح ہوگئی کہ اس کا باپ اللہ کا دشمن ہے تو ابراہیم( علیہ السلام)نے اپنے باپ سے اظہار بیزاری کیا،ابراہیم( علیہ السلام)واقعی بڑا رقیق القلب اور حوصلے والا تھا۔‘‘(سورۃ التوبہ،آیت نمبر 114) ﴿وَاِذْ قَالَ اِبْرَاہِیْمُ لِاَبِیْہِ وَقَوْمِہٖٓ اِنَّنِیْ بَرَآئٌ مَّمَّا تَعْبُدُوْنَ،اِلاَّ الَّذِیْ فَطَرَنِیْ فَاِنَّہٗ سَیَہْدِیْنِ﴾(43:26-27) اور جب ابراہیم نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے کہا’’جن کی تم بندگی کرتے ہو میں ان سے بیزار ہوں میرا تعلق صرف اس ذات سے ہے جس نے مجھے پیدا کیا وہی میری رہنمائی فرمائے گا۔(سورہ الزخرف،آیت نمبر 26-27) مسئلہ 191:حضرت لوط علیہ السلام کی کافر قوم سے بیزاری،نفرت اور بددعا۔ ﴿قَالَ اِنِّیْ لِعَمَلِکُمْ مِّنَ الْقَالِیْنَ،رَبِّ نَجِّنِیْ وَ اَہْلِیْ مِمَّا یَعْمَلُوْنَ﴾(26:168-169) ’’ حضرت لوط نے فرمایا میں تمہارے اعمال سے بیزار ہوں۔اے میرے رب!مجھے اور میرے متعلقین کو ان کے کرتوتوں سے بچا لے۔‘‘(سورۃ الشعراء،آیت نمبر 168-169) مسئلہ 192:حضرت صالح علیہ السلام کی کافر قوم سے بیزاری اور نفرت۔ ﴿فَأَخَذَتْہُمُ الرَّجْفَۃُ فَاصْبَحُوْا فِیْ دَارِہِمْ جٰثِمِیْنَ،فَتَوَلّٰی عَنْہُمْ وَ قَالَ یٰـقَوْمِ لَقَدْ اَبْلَغْتُکُمْ رِسَالَۃَ رَبِّیْ وَ نَصَحْتُ لَکُمْ وَلٰـکِنْ لاَّ تُحِبُّوْنَ النّٰصِحِیْنَ﴾(7:78-79) ’’بالآخر ایک زبردست زلزلہ آیا اورکافر اپنے گھروں میں اوندھے پڑھے رہ گئے اور صالح یہ کہتے ہوئے ان کی بستیوں سے نکل گئے کہ اے میری قوم!میں نے اپنے رب کا پیغام تجھے پہنچا دیا اور تمہاری خیر خواہی کی لیکن تم لوگ اپنے خیر خواہوں کو پسند نہیں کرتے۔‘‘(سورۃ الاعراف،آیت نمبر 78-79) مسئلہ 193:حضرت شعیب علیہ السلام کی کافروں سے بیزاری اور نفرت۔