کتاب: دوستی اور دشمنی (کتاب و سنت کی روشنی میں) - صفحہ 17
اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْہِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا﴾ترجمہ:’’بے شک اللہ تعالیٰ اور فرشتے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجتے ہیں اے لوگو!جو ایمان لائے ہو تم بھی ان پر درود وسلام بھیجو۔‘‘(سورہ الاحزاب،آیت نمبر 56) اللہ تعالیٰ کا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر ’’صلاۃ‘‘بھیجنے سے مراد رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرنا اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پراپنی رحمتیں نازل فرماناہے۔فرشتوں کا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر ’’صلاۃ ‘‘بھیجنے سے مرادرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ محبت کرنا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پررحمت نازل کرنے کی دعائیں کرناہے۔جب اللہ تعالیٰ اور فرشتے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرتے ہیں تو اہل ایمان پررسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرنا بدرجہ اولیٰ فرض ہے۔ اللہ تعالیٰ کے اس حکم کے علاوہ امت کے ساتھ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت،شفقت اور رحمت کا بھی یہ تقاضاہے کہ ہر مسلمان اپنی جان مال اور آل اولاد سے بڑھ کر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرے۔ غور فرمائیے!وہ محترم اور مکرم رسول صلی اللہ علیہ وسلم جنہوں نے ہمیں عقیدہ توحید سے آشنا کیا،جنہوں نے ہمیں جہنم کے راستے سے ہٹا کر جنت کے راستے پر ڈالا،جنہوں نے ہمیں اللہ کی بندگی کا سلیقہ سکھایا،جنہوں نے ہمیں با مقصد زندگی بسر کرنے کی تعلیم دی،جنہوں نے ہمیں اٹھنے،بیٹھنے،چلنے،پھرنے،سونے،جاگنے،کھانے،پینے اور گفتگو کرنے حتی کہ طہارت اور پاکیزگی کے آداب سکھلائے،جنہوں نے ہم تک دین پہنچانے کے لئے بے پناہ مصائب اور مظالم برداشت کئے،جنہوں نے پتھر مارنے والوں اورلہولہان کرنے والوں کے لئے ہدایت کی دعائیں مانگیں،جنہوں نے دشمن پر دسترس حاصل ہونے کے بعد کمال شفقت اور مہربانی سے انہیں معاف فرمادیا،جنہوں نے رات کی تنہائیوں میں ہمارے لئے مغفرت اور بخشش کی دعائیں مانگیں،جنہوں نے سات آسمانوں کے اوپر جاکر بھی ہمیں فراموش نہیں فرمایا،جنہوں نے ساری ساری رات ہمارے غم میں آنسو بہائے،جنہوں نے اپنی مخصوص دعا ہماری مغفرت کے لئے محفوظ فرمالی،جو جہنم اور جنت کا فیصلہ ہوجانے کے بعدبھی ہماری شفاعت کے لئے بے چین ہوں گے جو واقعتاہمارے ماں باپ،ہمارے بیوی بچوں سے بھی زیادہ ہمارے خیرخواہ اور ہمدرد ہیں بلکہ ہماری اپنی ذات سے بھی بڑھ کر ہمارے محسن اور مہربان ہیں،ان سے ایسی محبت کرنا جو اللہ تعالیٰ کے بعد دنیا کے تمام رشتوں سے بڑھ کر ہو،ہر مسلمان پر واجب ہونی ہی چاہئے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ایمان کے اُس درجہ پر فائز تھے جو اللہ تعالیٰ کو مطلوب تھا اس لئے بعد میں آنے والے مسلمانوں کو حکم دیا گیاکہ ’’تم بھی ویسا ہی ایمان لاؤ جیسا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ایمان لائے تھے۔‘‘ارشاد