کتاب: دوستی اور دشمنی (کتاب و سنت کی روشنی میں) - صفحہ 15
بازوؤں کی مضبوط گرفت میں تھا۔ حضرت عمروبن جموح رضی اللہ عنہ لنگڑا کر چلتے تھے بیٹوں نے غزوہ احد میں شریک ہونے سے زبردستی روک دیاتو کاشانہ نبوت پر حاضر ہوئے عرض کیا’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم!میرے لڑکے مجھے جہاد پر جانے سے منع کررہے ہیں لیکن اللہ کی قسم مجھے امید ہے میں اللہ کی راہ میں مارا جاؤں گااور لنگڑاتے ہوئے جنت میں داخل ہوں گا،اللہ کے لئے مجھے اپنے ساتھ جہاد پر جانے کی اجازت مرحمت فرمادیں۔‘‘رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دے دی اور حضرت عمرو رضی اللہ عنہ میدان جنگ میں دادشجاعت دیتے ہوئے شہید ہوگئے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میدان جنگ میں ان کی لاش دیکھی تو فرمایا’’اللہ کے بعض بندے قسم کھاتے ہیں تو اللہ انہیں پورا فرمادیتاہے۔ قرآن مجید کی آیت:﴿مَنْ ذَا الَّذِیْ یُقْرِضُ اللّٰہَ قَرْضًا حَسَنًا فَیُضٰعِفَہٗ لَہٗ وَلَہٗ ٓ اَجْرٌ کَرِیْمٌ﴾ترجمہ’’کون ہے جو اللہ تعالیٰ کو قرض دے اچھا قرض تاکہ اللہ اسے کئی گنا بڑھا کر واپس کرے اور اس کے لئے بہترین اجرہے۔‘‘(سورہ حدید،آیت نمبر11)نازل ہوئی تو حضرت ابو دحداح رضی اللہ عنہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔عرض کیا’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم!کیااللہ ہم سے قرض مانگتے ہیں ؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا’’ہاں!‘‘ حضرت ابودحداح رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے عرض کیا’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم!میں اپنا باغ اللہ کو قرض دیتاہوں۔‘‘اس باغ میں ابو داحداح رضی اللہ عنہ کا رہائشی مکان بھی تھا،گھر سے باہر کھڑے ہو کر بیوی کو آواز دی ’’اُمِّ دحداح رضی اللہ عنہا گھر سے نکل آؤ میں نے یہ باغ اپنے رب کو قرض دے دیاہے۔‘‘بیوی بھی اللہ سے محبت کرنے والی تھی کہنے لگی ’’ابودحداح رضی اللہ عنہ!تم نے نفع کا سودا کیا ہے۔‘‘ بال بچوں کو لے کر فوراًگھر سے باہر نکل آئیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے دین کے لئے جان ومال کی قربانیاں دینا،گھربار اور وطن چھوڑنا،مصائب وآلام اور رنج والم برداشت کرنا،کفار کے ظلم وستم اور اذیتیں برداشت کرنا،اللہ کی محبت کے بغیر ممکن ہی نہیں اللہ تعالیٰ سے یہی محبت ’’عقیدہ الولاء ‘‘کی بنیاد ہے،جس پر ایمان لانا اور عمل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔ آخر میں ہم اپنے قارئین کی توجہ اس بات کی طرف دلانا چاہیں گے کہ ہم سب اللہ تعالیٰ سے محبت کے دعویدار ہیں سیرت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو سامنے رکھ کر ہمیں اپنے اس دعوے کا جائزہ لینا چاہئے کہ ہم اپنے اس دعوے میں کہاں تک سچے ہیں اگر ہم اللہ کے دین کے لئے کوئی قربانی دے رہے ہیں یا مشقت