کتاب: دوستی اور دشمنی (کتاب و سنت کی روشنی میں) - صفحہ 13
کر تپتی زمین پر لٹا دیتے اور پاس کھڑے ہوکر قہقہے لگاتے اور کہتے’’محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کامزا چکھو۔‘‘ ان کے شوہر حضرت یاسر رضی اللہ عنہ اور بیٹے حضرت عمار رضی اللہ عنہ اور عبداللہ رضی اللہ عنہ کی پشت کو آگ سے داغا جاتا،پانی میں غوطے دئیے جاتے،لوہے کی زرہیں پہناکرجلتی ریت پر لٹا دیاجاتا۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کفار کا ظلم اور غریب الدیار آل یاسر کا صبروثبات دیکھاتو فرمایا’’فَاصْبِرُوْ یَا آلُ یَاسِرْ اِنَّ مَوْعِدُکُمُ الْجَنَّۃِ‘‘(اے آل یاسر صبر کرنا تمہارے ساتھ جنت کا وعدہ ہے)ایک روز بوڑھی سمیہ رضی اللہ عنہا دن بھرکی سختیاں برداشت کرنے کے بعد شام کو گھر لوٹیں تو بدبخت ابوجہل نے انہیں گالیاں دینی شروع کردیں غصہ ٹھنڈانہ ہواتو اپنا برچھا حضرت سمیہ رضی اللہ عنہا کودے ماراوہ اسی وقت زمین پر گرپڑیں اور جان،جان آفریں کے سپرد کردی۔اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ! 4 حضرت خباب بن ارت رضی اللہ عنہ مکہ میں ام انمار بنت سباع الخزاعیہ کے غلام تھے۔اسلام لانے کے جرم میں کفار ان کے کپڑے اترواکردہکتے انگاروں پر لٹا دیتے اور سینے پر بھاری پتھر کی سل رکھ دیتے اور کبھی کوئی آدمی سینے پر چڑھ کر بیٹھ جاتاتاکہ کروٹ نہ بدل سکیں۔حضرت خباب رضی اللہ عنہ کا جسم انگاروں پہ جلتا رہتاحتی کہ خون اور پیپ جسم سے رس رس کر انگاروں کو ٹھنڈاکرتی،کبھی اُمِّ انمار حضرت خباب رضی اللہ عنہ کو لوہے کی زرہ پہناکر دھوپ میں لٹا دیتی اور کبھی گرم لوہے سے آپ رضی اللہ عنہ کا سر داغتی۔حضرت خباب رضی اللہ عنہ مسلسل کفار کے اس بہیمانہ ظلم کا نشانہ بنے رہے حتی کہ آپ رضی اللہ عنہ مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے مدینہ منورہ چلے گئے۔ 5 عبدالعزیٰ بن نہم یتیم تھے چچانے بڑی محبت اور شفقت سے پرورش کی لیکن جب مسلمان ہوئے تو چچا غضبناک ہوگیا،کہنے لگا’’نیادین چھوڑدو ورنہ تمہاری ساری جائیداد اور مال و متاع چھین لوں گا‘‘ عبدالعزیٰ نے جواب دیا’’چچا جان!میری جان بھی چلی جائے تواب یہ دین نہیں چھوڑوں گا۔‘‘ چچانے وہیں کھڑے کھڑے بدن کے کپڑے اتروالئے صرف ایک لنگوٹی رہنے دی۔ماں کے پاس آئے تو وہ دیکھ کر بیتاب ہوگئی جسم ڈھانکنے کے لئے چادر دی۔عبدالعزیٰ نے چادر کے دو ٹکڑے کئے ایک اوپر لیااور ایک نیچے باندھااورخالی ہاتھ پیدل مدینہ منورہ کا رُخ کر لیا طویل اورپُر صعوبت سفر طے کرنے کے بعد مدینہ منورہ پہنچے،نماز فجر کے بعد دربارِ رسالت میں حاضر ہوئے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا’’کون ہو؟‘‘عرض کیا’’عبدالعزیٰ ہوں،اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں گھر بار