کتاب: دوستی اور دشمنی (کتاب و سنت کی روشنی میں) - صفحہ 129
جوانوں کے بجائے اس میدان میں)کڑیل،بہادر جوانوں کے درمیان ہوتا۔ان دونوں میں سے ایک نے مجھے اشارے سے متوجہ کرکے پوچھا ’’چچا جان!آپ کو معلوم ہے ابو جہل کون ہے؟‘‘میں نے کہا ہاں مجھے معلوم ہے لیکن تم اسے کیا کہو گے؟اس نے کہا مجھے معلوم ہوا ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیتاہے۔اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر میں نے اسے دیکھ لیاتو میرا وجود اس کے وجود سے اس وقت تک الگ نہیں ہوگا جب تک کہ ہم میں سے جس کی مو ت پہلے لکھی ہے وہ مرنہ جائے۔مجھے اس نوجوان کی بات پر تعجب ہوااتنے میں دوسرے نوجوان نے مجھے اشارے سے متوجہ کرکے یہی بات پوچھی چند ہی لمحوں میں میری نظر ابو جہل پر پڑی وہ لوگوں کے درمیان چکر لگا رہاتھا۔میں نے دونوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ارے دیکھتے نہیں،وہ رہا ابوجہل جس کے بارے میں تم مجھ سے پوچھ رہے تھے۔یہ سنتے ہی دونوں اپنی تلواروں کے ساتھ یک دم جھپٹ پڑے اور اسے قتل کر ڈالا۔‘‘ابن کثیرنے البدایہ والنہایہ میں اس کا ذکر کیاہے۔ مسئلہ 111:حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت۔ عَنْ اَنَسٍ رَضی اللّٰه عنہ قَالَ لَمَّا کَانَ یَوْمُ اُحْدٍ انْہَزَمَ نَاسٌ مِنَ النَّاسِ عَنِ النَّبِیِّ صلی اللّٰه علیہ وسلم وَ اَبُوْ طَلْحَۃَ رَضی اللّٰه عنہ بَیْنَ یَدِی النَّبِیِّ صلی اللّٰه علیہ وسلم مُجَوِّبٌ عَلَیْہِ بَحَجَفَۃٍ،قَالَ:وَ کَانَ اَبُوْ طَلْحَۃَ رَجُلاً رَامِیًا شَدِیْدَ النَّزْعِ،وَ کَسَرَ یَوْمَئِذٍ قَوْسَیْنِ اَوْ ثَلاَ ثًا،قَالَ:فَکَانَ الرَّجُلُ یَمُرُّ مَعَہُ الْجَعْبَۃُ مِنَ النُّبَلِ،فَیَقُوْلُ((انْثُرْہَا ِلاَبِیْ طَلْحَۃَ رَضی اللّٰه عنہ))قَالَ:وَ یُشْرِفُ نَبِیُّ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم یَنْظُرُ اِلَی الْقَوْمِ،فَیَقُوْلُ اَبُوْ طَلْحَۃَ رَضی اللّٰه عنہ!یَا نَبِیَّ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم!بِاَبِیْ اَنْتَ وَ اُمِّیْ لاَ تُشْرِفْ لاَ یُصِبْیُکَ سَہْمٌ مِنْ سِہَامِ الْقَوْمِ،نَحْرِی دُوْنَ نَحْرِکَ))رَوَاہُ مُسْلِمٌ[1] حضرت انس(بن مالک)رضی اللہ عنہ کہتے ہیں احد کے روز شکست کھانے کی وجہ سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے الگ ہو گئے۔صرف ابو طلحہ رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس رہ گئے۔وہ اپنی ڈھال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوپر کئے ہوئے تھے۔حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ زبردست تیر انداز تھے اس روز ان کے ہاتھوں دو یا تین کمانیں ٹوٹیں۔جب کوئی صحابی تیروں کا ترکش لے کر نکلتا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے فرماتے ’’یہ تیر ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے لئے رکھ دو۔‘‘ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب اپنا سرمبارک اونچا کرکے کافروں کی طرف دیکھتے تو ابوطلحہ رضی اللہ عنہ فرماتے ’’اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم!میرے ماں باپ آپ پر قربان آپ سر مبارک اونچا نہ کریں کہیں
[1] کتاب الجہاد ، باب قول اللّٰه تعالیٰ و ہو الذی کف ایدیہم منکم.