کتاب: دوستی اور دشمنی (کتاب و سنت کی روشنی میں) - صفحہ 11
نکلنے والے یہ الفاظ اللہ تعالیٰ کے ساتھ بے پناہ والہانہ محبت کا مظہرہیں جو صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے شایان شان ہیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ تمناکہ میں چاہتا ہوں اللہ کی راہ میں قتل کیاجاؤں پھر زندہ کیا جاؤں پھر قتل کیا جاؤں پھر زندہ کیاجاؤں پھر قتل کیاجاؤں پھر زندہ کیاجاؤں(بخاری)اللہ تعالیٰ کے ساتھ اسی بے پناہ محبت ہی کااظہار ہے۔ اللہ تعالیٰ کی زیارت اور ملاقات کے شوق کی یہ دعا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود مانگی اور امت کو بھی سکھلائی اللہ تعالیٰ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ہی کا ثبوت ہے۔((اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ لَذَّۃَ النَّظْرِ اِلَی وَجْہِکَ وَالشَّوْقَ اِلٰی لِقَائِکَ فِیْ غَیْرِ ضَرَّائَ مُضِرَّۃٍ وَلاَ فِتْنَۃٍ مُضِلَّۃٍ))ترجمہ:’’یا اللہ!میں آپ سے آپ کی زیارت کی لذت کا سوال کرتا ہوں اور آپ سے ملا قات کا شوق مانگتاہوں کسی ایسی تکلیف کے بغیرجو نقصان پہنچائے اور کسی ایسے فتنے کے بغیرجو گمراہ کرے۔‘‘(ترمذی) اللہ تعالیٰ کی محبت کے حصول کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم درج ذیل دعا مانگنے کا اہتمام فرماتے: ((اَللّٰہُمَّ اجْعَلْ حُبَّکَ اَحَبُّ اِلَیَّ مِنْ نَفْسِیْ وَ مَالِیْ وَ اَہْلِیْ وَ مِنَ الْمَائِ الْبَارِدِ)) ’’یا اللہ!میرے دل میں اپنی محبت،میری جان،میرے مال،میرے اہل اور ٹھنڈے پانی سے بھی زیادہ ڈال دے۔‘‘(ترمذی) وفات مبارک سے چند یوم پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات ارشاد فرمائی ’’لوگو!تم میں سے مجھ پر سب سے زیادہ احسانات حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ہیں اگر میں اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اورکو اپنا دوست بنانے والا ہوتا تو ابوبکر رضی اللہ عنہ کو بناتا(بخاری)اور پھر وفات مبارک سے قبل جب اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ اختیار دیا کہ چاہیں تو دنیا میں رہ لیں چاہیں تو اپنے اللہ کے پاس آجائیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کے بجائے اپنے دوست کے پاس جانے کو ترجیح دی۔(بخاری) رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تعلیم وتربیت اور اپنے طرز عمل سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی مقدس جماعت میں اللہ تعالیٰ کی محبت اس طرح کوٹ کوٹ کر بھر دی کہ کسی بڑے سے بڑے کافر کا ظلم،کوئی بڑی سے بڑی ابتلاء اور بڑی سے بڑی آزمائش اس محبت میں ذرہ برابر کمی نہ کرسکی۔چند مثالیں پیش خدمت ہیں: 1 حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے رومیوں سے مقابلہ کے لئے ایک لشکر بھیجا جس میں حضرت عبداللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ