کتاب: دوستی اور دشمنی (کتاب و سنت کی روشنی میں) - صفحہ 10
باپ کو توحید کی دعوت دی باپ نے نہ صرف سنگسار کرنے کی دھمکی دی بلکہ گھر سے نکل جانے کا حکم دے دیا حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ سے محبت اور دوستی کی راہ میں والدین،اعزہ و اقارب،جائیداد،اور گھر بار کی محبت کو لمحہ بھر کے لئے بھی رکاوٹ نہ بننے دیا اور باپ سے الگ ہوگئے۔عقیدہ توحید کے جرم میں جب بادشاہ نے آگ میں ڈالنے کا فیصلہ سنایاتب بھی حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پائے استقلال میں ذرہ برابر لغزش پیدا نہ ہوئی،اسی(80)سال کی عمر میں اللہ تعالیٰ نے اولاد عطا فرمائی اور حکم دیا کہ بیوی بچے کو تن تنہا بے آب وگیاہ جنگل میں چھوڑ آؤتب بھی حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کا حکم بجا لانے میں لمحہ بھر کے لئے تامل نہ کیا۔چند سال بعد جب اللہ تعالیٰ نے نوجوان بیٹے کو قربان کرنے کا حکم دیا تو بیٹے کی محبت اللہ تعالیٰ کے حکم کے آگے سر تسلیم خم کرنے میں رکاوٹ نہ بن سکی اور یوں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ثابت کردیا کہ ان کی زندگی میں اللہ تعالیٰ کی محبت باقی تمام محبتوں پر غالب ہے تب اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی تعریف ان الفاظ میں فرمائی وَاِبْرَاہِیْمَ الَّذِی وَفّٰی ترجمہ،ابراہیم(علیہ السلام)تو وہ ہے جس نے وفا کا حق اداکردیا۔(سورہ النجم،آیت نمبر37) حضرت موسیٰ علیہ السلام کو جب اللہ تعالیٰ نے شریعت عطا کرنے کے لئے کوہ طور پر طلب فرمایاتو حضرت موسیٰ علیہ السلام قوم کے ستر آدمی اپنے ساتھ لے کر کوہ طور کی طرف روانہ ہوئے حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ تعالیٰ کی محبت اور شوق ملاقات سے اس قدر مغلوب ہوئے کہ اپنی قوم کو راستے میں چھوڑ کر جلدی جلدی اکیلے کوہ طور پر پہنچ گئے اللہ تعالیٰ نے پوچھا:﴿وَمَا اَعْجَلَکَ عَنْ قَوْمِکَ یٰمُوْسٰی﴾’’اے موسیٰ!کونسی چیز تمہیں اپنی قوم سے پہلے لے آئی؟‘‘حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جواب میں عرض کیا﴿عَجِلْتُ اِلَیْکَ رَبِّ لِتَرْضٰی﴾ ’’ اے میرے رب!میں نے جلدی اس لئے کی تاکہ تو خوش ہوجائے۔‘‘(سورہ طٰہٰ،آیت نمبر84-83) سفر طائف کے دوران رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو انتہائی غیر متوقع حزن وملال اور تکلیف دہ صورت حال کا سامنا کرنا پڑازخمی حالت میں شہر سے باہر انگوروں کے ایک باغ میں اپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پناہ لی دیوار سے ٹیک لگاکر بیٹھ گئے قدرے اطمینان ہوا تو بڑی رقت انگیز دعا مانگی جس کے چند فقرات یہ ہیں ’’یااللہ!اگر مجھ پر تیرا غضب نہیں تو مجھے(اس تکلیف اور دکھ کی)کوئی پروا نہیں تیری عافیت ہی میرا سہاراہے میں تیرے اُس رخِ انور کی پناہ چاہتا ہوں جس کے وسیلہ سے تاریکیاں روشن ہوتی ہیں اوردنیا وآخرت کے معاملات درست ہوتے ہیں کہ تو مجھ پر اپنا غضب نازل فرمائے یا تو مجھ سے ناراض ہو مجھے تو صرف تیری رضا مطلوب ہے یہاں تک کہ تو خوش ہوجائے۔‘‘حزن وملال کی شدید کیفیت میں بھی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے