کتاب: دوستی اور دشمنی کا اسلامی معیار - صفحہ 16
ترجمہ:تحقیق تمہارے لئے ابراھیم علیہ السلام اور انکے رفقاء میں ایک اچھا نمونہ ہے، جب انہوں نے اپنی قوم کے لوگوں سے کہا کہ ہم تم سے اور جن جن کی تم اللہ تعالیٰ کے سوا پوجا کرتے ہو، ان سب سے بے تعلق اور ناراض ہیں، ہم تمہاری اس روش کا انکار کرتے ہیں اور جب تک تم ایک اللہ تعالیٰ وحدہ لاشریک لہ پر ایمان نہیں لے آتے،ہمارے اور تمہارے درمیان ہمیشہ ہمیشہ کے لئے عداوت اور بغض قائم رہے گا ۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کی بھی یہی تعلیم ہے ۔قرآن حکیم میں ارشاد ہے : [يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الْيَھُوْدَ وَالنَّصٰرٰٓى اَوْلِيَاۗءَ ۘبَعْضُهُمْ اَوْلِيَاۗءُ بَعْضٍ ۭ وَمَنْ يَّتَوَلَّهُمْ مِّنْكُمْ فَاِنَّهٗ مِنْهُمْ ۭاِنَّ اللّٰهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظّٰلِمِيْنَ 51؀][1] ترجمہ:اے ایمان والو!یہود ونصاریٰ کو اپنا دوست نہ بناؤ، یہ ایک دوسرے کے دوست ہیں۔اور جو کوئی تم میںسے انہیں دوست بنائے گا وہ بلاشبہ انہیں میں سے ہوگا ۔ بے شک اللہ تعالیٰ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔ یہ آیتِ مبارکہ بطور خاص اہل کتاب سے دوستی وتعلق قائم کرنے کی حرمت وممانعت پر دلیل ہے ۔ ایک دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ نے عمومی طور پر ہر قسم کے کافروں سے دوستی قائم کرنے کو حرام قرارد یا ہے ۔فرمایا:
[1] المائدۃ:۵۱