کتاب: دل کا بگاڑ - صفحہ 84
دوزخ کی یاد دلاتے رہتے ہیں گویا ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم انھیں اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہوں، جب ہم آپ کے پاس سے چلے جاتے ہیں تو ہم اپنے بیوی بچوں اور زمین کے معاملات وغیرہ میں مشغول ہو جانے کی وجہ سے بہت ساری چیزوں کو بھول جاتے ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اگر تم اسی کیفیت پر ہمیشہ رہو جس حالت میں میرے پاس ہوتے ہو، ذکر میں مشغول ہوتے ہو تو فرشتے تمہارے بستروں پر تم سے مصافحہ کریں اور راستوں میں بھی، لیکن اے حنظلہ ایک گھڑی (یاد کی)ہوتی ہے اور دوسری (غفلت کی) اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار فرمایا۔ (مسلم:۲۷۵۰) ’’حنظلہ منافق ہوگیا‘‘ اس کے معنی یہ ہے کہ آپ کو یہ خوف محسوس ہوا کیا منافق ہوگیا ہوں ، کیونکہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں ہوتے تو انھیں خوف محسوس ہوتا، اور اس کے ساتھ مراقبہ و تفکیر اور فکرِ آخرت لاحق ہوتی۔ مگر جب اس مجلس سے نکلتے تو بیوی بچوں میں اور دنیا کے دھندوں میں مصروف ہوجاتے۔ اصل میں نفاق اس چیز کو کہا جاتا ہے جو کہ انسان اپنے دل میں چھپائے ہوئے شر کے خلاف ظاہر کرتا ہے۔ آپ کو یہ خوف محسوس ہوا کہ کہیں یہ بھی نفاق نہ ہو تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں بتایا کہ یہ نفاق نہیں ہے ؛ اورانھیں ہمیشہ اسی چیز پر مداومت کرنے کا مکلف نہیں ٹھہرایا گیا۔ ’’ایک گھڑی اور ایک گھڑی‘‘ سے مراد یہ ہے کہ ایک گھڑی ایسے ہونا چاہیے اور ایک گھڑی ایسے ہونا چاہیے۔[1] سیّدنا حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’ سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ کو ایک جنازہ کے لیے بلایا گیا۔ آپ اس جنازہ میں نکلے ، یا
[1] رواہ ابن أبي شیبۃ: ۸/۶۳۷۔ علامہ ہیثمی رحمہ اللہ نے مجمع الزوائد ۳/۴۲ میں کہا ہے: اس کے راوی ثقہ ہیں۔ سیّدنا حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کوتبوک سے واپسی پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منافقین کے نام بتادیے تھے۔ اس لیے آپ کو بہت سارے ایسے لوگوں کے منافق ہونا کا علم تھاجنہیں عام لوگ نہیں جانتے تھے کہ یہ منافق ہیں۔ مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو ہدایت کی تھی کہ یہ راز کسی کو بتانا نہیں۔ اس لیے آپ کسی کو بتایا نہیں کرتے تھے۔