کتاب: دل کا بگاڑ - صفحہ 83
کہ کہیں انھیں لوگوں کی طرف سے مذمت کا سامنا کرنا پڑے اور معاشرے میں وہ اپنا وقار کھو بیٹھیں۔ یا ان کے علاوہ کوئی دوسرے دنیاوی فائدے جو ان کی نظر میں ہوں،ان کے ختم ہوجانے کا اندیشہ ہو؛ اسی وجہ سے وہ ظاہری طور پر تو اسلام کا اعلان کرتے رہتے ہیں ، مگر حقیقت میں وہ کافر اور مرتد ہوتے ہیں۔
نفاق کا خوف
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور ان کے بعد سلف صالحین رحمہم اللہ میں نفاق کا بہت زیادہ خوف پایا جاتا تھا۔ سیّدنا ابو درداء رضی اللہ عنہ نماز میں جب تشہد سے فارغ ہوجاتے تو نفاق سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتے، اور کثرت سے پناہ مانگتے۔ کسی نے ان سے کہا: اے ابودرداء آپ اور نفاق؟ آپ کو کیا ہوگیا ہے؟ تو فرمانے لگے: ’’ تم اس چیز کو چھوڑ دو ؛ اللہ کی قسم ! کوئی شخص ایک لمحہ اپنے دین سے مرتد ہوجاتا ہے اور اسی لمحے دین اس سے چھین لیا جاتا ہے۔[1]
سیّدنا حنظلہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں: ’’ سیّدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کی مجھ سے ملاقات ہوگئی ؛ فرمانے لگے: ’’سناؤ حنظلہ ! کیا حال ہے؟ کہتے ہیں ،میں نے کہا: حنظلہ منافق ہوگیا ہے؟ فرمایا: سبحان اللہ تم یہ کیا کہتے ہو؟ ’’میں نے کہا ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ہوتے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں جنت دوزخ کی یاد دلاتے رہتے ہیں گویا کہ ہم انھیں اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں۔ جب ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے چلے جاتے ہیں تو ہم بیوی بچوں اور زمینوں وغیرہ کے معاملات میں مشغول ہو جاتے ہیں اور ہم بہت ساری چیزوں کو بھول جاتے ہیں۔ سیّدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا اللہ کی قسم ہمارے ساتھ بھی اسی طرح معاملہ پیش آتا ہے میں اور ابوبکر چلے یہاں تک کہ ہم رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوئے میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول! حنظلہ تو منافق ہوگیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا وجہ ہے؟ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! ہم آپ کی خدمت میں ہوتے ہیں تو آپ ہمیں جنت
[1] سیر أعلام النبلاء: ۶/۳۸۲۔ علامہ ذہبی رحمہ اللہ نے اسے صحیح کہا ہے۔