کتاب: دل کا بگاڑ - صفحہ 73
سیّدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے:
’’عیش پرستوں اور اہل عجم کالباس پہننا چھوڑ دو۔‘‘[1]
سیّدنا ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اے ابن آدم! اپنی ضرورت سے زائد مال خرچ کر دینا تیرے لیے بہتر ہے اگر تو اس کو روک لے گا تو تیرے لیے برا ہوگا اور دینے کی ابتدا اپنے اہل و عیال سے کر اور اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے۔‘‘[2]
۷۔ عیش پرستی کا مقابلہ اور غرباء کا خیال:
عیش پرستی اور نعمت کوشی کے مقابلہ کے وسائل میں سے ایک یہ بھی ہے کہ انسان غربا وفقراء کے ساتھ کھانے پینے میں شریک ہو۔ حضر ت ابن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سقایہ کی طرف آئے اور پانی مانگا تو سیّدنا عباس نے کہا:
’’اے فضل!تم اپنی ماں کے پاس جا، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے پانی لے آ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے پانی پلا، عباس نے کہا:یا رسول اللہ! لوگ اس میں اپنا ہاتھ ڈالتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے پانی پلا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پانی پیا۔‘‘[3]
سیّدنا عباس رضی اللہ عنہ کا خیال تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایسا پانی منگوایا جائے جس میں کسی نے ہاتھ نہ ڈالے ہوں ، مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا انکار کیا اور لوگوں کے ساتھ ان کے پانی میں شریک ہوئے۔
سیّدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اگر پائے بھی کھانے کی دعوت میں مجھے دئیے جائیں تو میں قبول کرلوں گا، اور
[1] رواہ احمد في المسند:۱/۳۹۴.
[2] مسلم ، کتاب الزکوٰۃ، باب بیان أن الید العلیا…:۱۰۳۶.
[3] بخاری ، کتاب الحج، باب سقایۃ الحج: ۱۶۳۵.