کتاب: دل کا بگاڑ - صفحہ 72
ہوا تھا - جومتوضع لباس شمار ہوتا تھا-اور کہنے لگا: امیر المؤمنین کا یہی کپڑا میرے پاس ہے ، اس میں سے لے لیجیے۔ عبد اللہ واپس اپنے والد عمر بن عبدالعزیز کے پاس گئے اور عرض گزار ہوئے: ابا جی ! میں نے آپ سے پہننے کے لیے لباس مانگا تھا ،آپ نے مجھے خیار بن رباح کے پاس بھیجا۔ اس نے مجھے ایسا کپڑا نکال کر دیکھایا جو کہ نہ ہی ہمارا لباس ہے اورنہ ہی ہماری قوم کا لباس ہے۔ آپ نے فرمایا: اس آدمی کے پاس ہمارا وہی کپڑا ہے۔
عبد اللہ بن عمر رحمہ اللہ واپس پلٹ گئے۔ جب وہ دروازے سے نکلنے والے تھے تو انھیں آواز دی اور فرمایا: ’’ کیا یہ مناسب ہوگا کہ میں بیت المال سے تمہیں ایک سو درہم قرضہ دے دوں؟ عرض کیا: ہاں ؛ ابا جی! تو انھیں سو درہم قرض دے دیا گیا۔ جب بیت المال سے ان کے عطیہ کی باری آئی توحساب کرکے اس میں سے سو درہم کاٹ لیے گئے۔‘‘[1]
جناب عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ زہد کی انتہاء کو پہنچے ہوئے تھے۔ مالک بن دینار رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ لوگ کہتے ہیں:مالک بن دینار زاہد ہے۔‘‘(میں کہتا ہوں)بے شک زاہد تو عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ ہیں؛ دنیا نے جن کی قدم بوسی کی ،مگر انہوں نے دنیا کو ترک کردیا۔‘‘ [2]
۶۔ بعض نعمتوں کو چھوڑ دینا:
سیّدنا معاذ بن انس جہنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’جس نے تواضع کے پیش نظر(نفیس وقیمتی)لباس ترک کیا، حالانکہ وہ اس پر قدرت رکھتا ہے تو روزِ قیامت اللہ تعالی اسے مخلوق کے سامنے بلائے گا اور اسے اختیار دے گا کہ اہل ایمان کے لباسوں میں سے جسے چاہے پہن لے۔‘‘[3]
سیّدناابو عثمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سیّدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ان کی طرف خط لکھا:
’’ اور تمہیں عیش وعشرت اور مشرکوں والے لباس اور ریشم پہننے سے پرہیز کرنا چاہیے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ریشمی لباس پہننے سے منع فرماتے تھے۔‘‘[4]
[1] تاریخ دمشق: ۱۷/۶۶.
[2] السنۃ لعبد اللّٰہ بن أحمد بن حنبل: ۱/۱۱۹.
[3] ترمذی ، ابواب الزہد، باب البناء کلہ وبال:۲۴۸۱ صححہ الحاکم.
[4] مسلم ، کتاب اللباس والزینۃ ، باب تحریم لبس الحریر…: ۱۲؍۲۰۶۹.