کتاب: دل کا بگاڑ - صفحہ 71
یہ سیّدنا مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ ہیں۔ یہ وہ شخصیت ہے جن کی عیش پرستی کی مثالیں قریش میں بیان کی جاتی تھیں۔ کوئی بھی انسان لباس اور خوشبو میں ان کا مقابلہ نہیں کرسکتا تھا، پھر انہوں نے عیش پرستوں کی زندگی کو خیر آباد کہہ دیا اور زاہدین کی کشتی کے ایک مسافر بن گئے۔ جب شہادت کے مرتبہ پر فائز ہوئے تو ان کے لیے اتنا کفن نہیں ملتا تھا جو کہ سارے جسم کے لیے کافی ہوسکے۔ صرف ایک چادر کے علاوہ کچھ بھی نہ ملا، اس چادر سے اگر سر کو ڈھانپتے تو پاؤں کھل جاتے اور جب پاؤں ڈھانپتے تو سر کھل جاتا۔‘‘[1]
عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ ایک دوسری عمدہ ترین مثال ہیں جنہوں نے راحت و آسائش کی زندگی کو خیر آباد کہہ کر زہد کی زندگی اختیار کرلی تھی۔
حجاج الصواف بیان کرتے ہیں: ’’ مجھے عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ نے حکم دیا کہ ان کے لیے کپڑا خریدلاؤں۔ میں نے آپ کے لیے کپڑا خریدا ، اس میں ایک جوڑا ایسا بھی تھا جس کی قیمت چار سو درہم تھی۔ آپ نے کپڑے کو اپنے ہاتھ سے چھوا اور فرمانے لگے:
’’یہ کتنا موٹا اور کتنا کھر درا کپڑا ہے۔ پھر حکم دیا کہ ان کے لیے کوئی دوسرا کپڑا خریدا جائے۔‘‘ آپ کے لیے دوسرا جوڑا چودہ درہم میں خریدا گیا ؛ آپ نے اسے چھو کر فرمایا:
’’سبحان اللہ ! کتنا ہی نرم اور کتنا باریک کپڑا ہے۔‘‘[2]
عبد اللہ بن عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ اپنے باپ کے پاس آتے ہیں [جس وقت وہ خلیفہ تھے] اور ان سے تن ڈھانپنے کے لیے کپڑا مانگتے ہیں اور عرض کرتے ہیں: اے میرے ابا جی ! مجھے کوئی لباس تو پہنادیجیے۔ تو آپ نے انھیں حکم دیا: خیار بن رباح بصری کے پاس جاؤ؛ اس کے پاس میرے کپڑے پڑے ہوئے ہیں ، ان میں سے جو چاہولے لو۔ آپ خیار بن رباح کے پاس گئے اور اس سے کہا: میں نے اپنے باپ سے پہننے کے لیے لباس مانگا تھا ، انہوں نے کہا کہ خیار بن رباح کے پاس جاؤ ، اس کے پاس میرے کپڑے ہیں ان میں سے جو چاہو ، لے لو۔ اس نے کہا: امیر المؤمنین نے سچ کہا اور ایک لمبا قطری جوڑا نکالا ،جو کہ رنگا
[1] ابن حبان في الثقات: ۱/۲۳۴.
[2] الطبقات الکبرٰی: ۵/۳۳۴.