کتاب: دل کا بگاڑ - صفحہ 68
جب امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا کہ کیا جس آدمی کے پاس ایک ہزار دینار ہوں وہ زاہد ہوسکتا ہے؟ آپ نے فرمایا:
’’ ہاں وہ زاہد ہوسکتا ہے بشرطیکہ جب اس میں زیادتی ہو تو وہ خوشی محسوس نہ کرے ، اور جب اس میں کمی ہوجائے تو وہ پریشان نہ ہو۔‘‘ [1]
سیّدنا محصن الانصاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ جس شخص نے اس حالت میں صبح کی کہ وہ خوش حال تھا، بدن کے لحاظ سے تندرست تھا اور اس کے پاس اس دن کے لئے روزی موجود تھی تو گویا کہ اس کے لئے دنیا سمیٹ دی گئی۔‘‘[2]
انسان کو چاہیے کہ دنیا کو دل کی فیاضی کے ساتھ لے ، اس کو بھی دے اور اس کے ساتھ صلہ رحمی کا حق بھی ادا کرے اور لوگوں پر صدقہ بھی کرے۔ جو مال اس کے پاس ہے گویا کہ وہ لوگوں کے لیے ہے۔
۳۔اپنے سے ادنیٰ کو دیکھے:
انسان کو ہمیشہ کے لیے یہ بات مد ِ نظر رکھنی چاہیے کہ وہ [دنیا کے معاملات میں] ان لوگوں کی طرف نہ دیکھے جو اس سے جاہ و منصب میں آگے ہیں ،بلکہ ان لوگوں کی طرف دیکھے جو اس سے پیچھے ہیں۔ تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو پہچان کر ان کا اعتراف کرے اوران لوگوں کی طرف ہر گز نہ دیکھے جو عیش پرستی میں مگن ہیں۔
۴۔ امیدیں کم کرنا:
سیّدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں:
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا کندھا پکڑ کر فرمایا کہ تم دنیا میں اس طرح رہو گویا تم مسافر ہو یا راستہ طے کرنے والے ہو۔‘‘
[1] مدارج السالکین: ۱/۴۶۵۔ فیض القدیر: ۴/۷۲.
[2] ترمذی، ابواب الزہد، باب فی الوصف من میزت لہ الدنیا: ۲۳۴۶ حسنہ الألباني رحمہ اللّٰہ.