کتاب: دل کا بگاڑ - صفحہ 40
یعنی صرف اتنی روزی دے کہ وہ کسی سے مانگنے کے محتاج نہ رہیں، اور نہ ہی اس میں اتنی زیادتی ہو جس کی وجہ سے عیش و عشرت میں مبتلا ہو جائیں۔
عیش پرستو ! خوش نہ ہونا
۱۔نعمتیں امتحان و آزمائش:
اللہ تعالیٰ نے واضح کردیا ہے کہ اس دنیا میں بندوں پر نعمتوں کی وسعت امتحان اور آزمائش ہے۔یہ اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ جس شخص پر نعمتوں کی کثرت ہے ، اللہ تعالیٰ بھی اس سے راضی ہے، اوراس سے محبت کرتا ہے ، جیسا کہ اکثر عیش و عشرت کے دلدادہ لوگ یہ گمان کرتے ہیں۔ ان کے خیال میں ان پر ان نعمتوں کی کثرت اللہ تعالیٰ کی رضامندی کی علامت ہے۔ اللہ تعالیٰ اس عیش پرست پر کیسے راضی ہوسکتا ہے جو اس کی نعمتوں کو بطورِ ناراضی اور تکبر استعمال کرتا ہے؟ان سے پہلے کفار بھی ایسا ہی گمان کیا کرتے تھے۔ جب انہوں نے مال و اولاد کی کثرت دیکھی توکہنے لگے:
﴿ وَقَالُوا نَحْنُ أَكْثَرُ أَمْوَالًا وَأَوْلَادًا وَمَا نَحْنُ بِمُعَذَّبِينَ ﴾ (سبا:۳۵)
’’اورکہنے لگے کہ ہم مال اور اولاد زیادہ رکھتے ہیں اورہم کو عذاب ہونے والا نہیں۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے انھیں خبر دی کہ ان کا یہ اعتقاد درست نہیں، سو اللہ عزو جل نے ارشاد فرمایا:
﴿ وَمَا أَمْوَالُكُمْ وَلَا أَوْلَادُكُمْ بِالَّتِي تُقَرِّبُكُمْ عِنْدَنَا زُلْفَى إِلَّا مَنْ آمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَأُولَئِكَ لَهُمْ جَزَاءُ الضِّعْفِ بِمَا عَمِلُوا وَهُمْ فِي الْغُرُفَاتِ آمِنُونَ ﴾ (سبا: ۳۷ )
’’اور نہ تمھارے مال ایسے ہیں اور نہ تمھاری اولاد جو تمھیں ہمارے ہاں قرب