کتاب: دفاع صحابہ و اہل بیت رضوان اللہ اجمعین - صفحہ 98
ہوجاؤں ۔‘‘ [1] آپ اس محاصرہ کے دوران حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے لیے اپنے بیٹے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پانی بھیجا کرتے تھے۔ [2] پھر یہ کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں یہ عقیدہ تو خوارج کا مسلک ہے کیونکہ وہ آپ کی مدح کی روایات کو اپنی بدگمانی کے مطابق آپ کے کفر سے پہلے کی زندگی پر محمول کرتے ہیں ۔ اس پر ذرا غور کریں ۔ اہل بیت رضی اللہ عنہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی راہ کو مضبوطی سے پکڑنے کی وصیت کیا کرتے تھے۔ کیونکہ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع اور صحابہ کی پیروی کی ترغیب خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے۔ اس سے اس بات کی تائید ہوتی ہے کہ ان حضرات میں دین بدرجہ اتم اورکامل موجود تھا۔ حضرت امام جعفر صادق رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: ’’ جو کچھ تم کتاب اللہ میں پاؤ اس پر عمل کرو اس کے ترک کرنے میں تمہارا کوئی عذر نہیں مانا جائے گا اور جو کچھ کتاب اللہ میں نہ پاؤتو اس میں میری سنت موجود ہوگی۔ میری سنت کے ترک کرنے میں تمہارا کوئی عذر نہیں مانا جائے گا اور جو کچھ میری سنت میں بھی نہ ہو تو جو کچھ میرے اصحاب نے کہا ہو تم بھی وہی کہو۔ بیشک تم میں میرے اصحاب کی مثال ستاروں کی طرح ہے۔ان میں سے جس کی راہ پر بھی چلو گے ہدایت پا جاؤگے اور میرے صحابہ کا جو قول بھی اختیار کرو گے راہ ہدایت پر رہوگے۔اور میرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اختلاف تمہارے لیے رحمت ہے۔‘‘ [3] اور حضرت امام کاظم رحمہ اللہ اپنے آباء سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میں اپنے صحابہ کے لئے حفاظت کاذریعہ ہوں ،جب میں چلا جاؤں گا ، تو میرے اصحاب پر وہ وقت آجائے گا جس کا وعدہ ہے۔اورمیرے صحابہ میری امت کے لئے حفاظت کا ذریعہ ہیں ،
[1] نہج البلاغۃ ۲؍۲۳۳۔ بحار الأنوار ۳۱؍ ۲۶۸۔ الغدیر للأمیني ۸؍۳۸۱۔ شرح نہج البلاغۃ لابن أبي الحدید: ۱۳؍۲۹۶۔ یہاں پر لکھا ہے کہ آپ فرمایا کرتے تھے:’’ میں نے آپ کا اتنا دفاع کیا کہ مجھے اندیشہ ہوا کہ کہیں میں اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈال دوں اور لوگ غصہ میں آکر مجھے قتل نہ کردیں ۔ پس مجھے اس بات پر اندیشہ ہوا کہ کہیں اپنے نفس کو دھوکا دینے کی وجہ سے میں گنہگار نہ ہو جاؤں ۔نیز دیکھیں : جواہر التاریخ للکوراني: ۱؍۱۹۱۔ موسوعۃ أمام علي بن ابي طالب: ۳؍۲۶۱۔ [2] دلائل الإمامۃ ۱۶۸۔ مدینۃ المعاجز للبحراني ۳؍۲۳۵۔ الدرر النظیم لابن حاتم العاملي ۵۰۳۔ [3] معاني الأخبار للصدوق ۵۰۔ بحار الأنوار للمجلسي۲؍ ۲۲۰۔ الاحتجاج للطبرسي ۲؍۲۵۹۔